021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچوں کی خلوت گاہ(کمرہ) کب الگ کی جائے؟
73703جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

حدیث شریف میں دس سال کی عمر ہوجانے پر بچوں کے بستر الگ کرنے کا حکم ہے، لیکن یہ وضاحت نہیں کہ انہیں( سونے کے لیے) کب الگ کمرے میں منتقل کیا جائے؟میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کم از کم پندرہ سال تک کے بچے کو اپنے کمرے میں ہی سلایا جائے، مگر ایک عزیزہ کی طرف سے اس کی مخالفت کی وجہ سے آپ سے رجوع کررہا ہوں۔ رہنمائی درکار ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دس سال کی عمر ہونے کے بعدبھی بچا یا بچی کے لیےاپنےوالدین کےخلوت گاہ( کمرے) میں  انکی اجازت سےسونافی نفسہ جائز ہے،لیکن قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت نمبر۵۹کے اشارہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس عمر کے بعداس کا مستقل معمول نہیں ہونا چاہئےاور ان کےمستقل کمرے اور خوبگاہیں الگ ہونی چاہئے، جیساکہ والدین کے خلوت گاہوں میں خلوت کے اوقات میں انکی آمدورفت کو اجازت سے مشروط کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔(ماخوذ از معارف القرآن:ج۶ص۴۴۵)

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۴ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب