73731 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
ہماری کتابیں ہر سال دسمبر میں بند ہوتی ہیں جس میں نفع ونقصان کا حساب ہوتا ہے اور سرمایہ کتنا ہےیہ بھی، اس لیے کہ زکوۃ کے حساب میں سہولت ہوتی ہے، چونکہ تجارت کرتے ہیں اس لیے رواں سال میں مال بھی ہوتا ہے جس کا تخمینہ لگانا ہر وقت دشوار ہوتا ہے، کیونکہ کچھ مال آچکا ہوتا ہے اور کچھ مال راستے میں ہوتا ہے جس کی کچھ رقم کبھی کبھار پہلے دی جاتی ہے، ان وجوہ کی وجہ سے سال کے بیچ میں تخمینہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے والد صاحب نے فیصل آباد میں کسی مفتی صاحب سے پوچھا تھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ انگریزی مہینے سے زکوۃ کا حساب ہے تو 2٫5 کے بجائے 2٫58 سے زکوۃ دینی ہوگی، چونکہ ہمارے پاس اس کی تحریر نہیں لہذا اب دوبارہ سؤال کررہے ہیں کہ یہ صورت زکوۃ کی حساب کی صحیح ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اصل حکم تو یہ ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی میں قمری سال کا اعتبار ہے، لیکن اگر کسی مشکل کی وجہ سے اس پر عمل حرج لازم آئے تو شمسی سال کے اعتبار سے بھی زکوۃ ادا کی جاسکتی ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اول کل مال(سرمایہ اور منافع )کا محتاط اندازے کے مطابق تخمینہ لگایا جائے اور اس کے بعد شمسی اور قمری مہینوں میں جو فرق ہے،اس کے حساب سے زائد مقدار زکوۃ کی دی جائےاور اس میں بھی احتیاط کے پیش نظر کسی قدر زائد(2٫58 فیصد) دینا بہترہے۔(ماخوذازامداد الفتاوی:ج۲،ص۳۱) گیارہ دن کے فرق کے حساب سے اس کا فارمولا یوں بنے گا:
(2٫5/360=0٫0069444444*11=0٫0763888889+2٫5=2٫5763555559)
حوالہ جات
۔۔۔۔۔
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۲۶ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |