021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شمسی /انگریزی سال کے اعتبار سے زکوة دینے کا حکم
73731زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

ہماری کتابیں ہر سال دسمبر میں بند ہوتی ہیں جس میں نفع ونقصان کا حساب ہوتا ہے اور سرمایہ کتنا ہےیہ بھی، اس لیے کہ زکوۃ کے حساب میں سہولت ہوتی ہے، چونکہ تجارت کرتے ہیں اس لیے رواں سال میں مال بھی ہوتا ہے جس کا تخمینہ  لگانا ہر وقت دشوار ہوتا ہے، کیونکہ کچھ مال آچکا ہوتا ہے اور کچھ مال راستے میں ہوتا ہے جس کی کچھ رقم کبھی کبھار پہلے دی جاتی ہے، ان وجوہ کی وجہ سے سال کے بیچ میں تخمینہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے والد صاحب نے فیصل آباد میں کسی مفتی صاحب سے پوچھا تھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ انگریزی مہینے سے زکوۃ کا حساب ہے تو 2٫5 کے بجائے 2٫58 سے زکوۃ دینی ہوگی، چونکہ ہمارے پاس اس کی تحریر نہیں لہذا اب دوبارہ سؤال کررہے ہیں کہ یہ صورت زکوۃ کی حساب کی صحیح ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصل حکم تو یہ ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی میں قمری سال کا اعتبار ہے، لیکن اگر کسی مشکل کی وجہ سے اس پر عمل حرج لازم آئے تو شمسی سال کے اعتبار سے بھی زکوۃ ادا کی جاسکتی ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اول کل مال(سرمایہ اور منافع )کا محتاط اندازے کے مطابق تخمینہ لگایا جائے اور اس کے بعد شمسی اور قمری مہینوں میں جو فرق ہے،اس کے حساب سے زائد مقدار زکوۃ کی دی جائےاور اس میں بھی احتیاط کے پیش نظر کسی قدر زائد(2٫58 فیصد) دینا بہترہے۔(ماخوذازامداد الفتاوی:ج۲،ص۳۱) گیارہ دن کے فرق کے حساب سے اس کا فارمولا یوں بنے گا:

(2٫5/360=0٫0069444444*11=0٫0763888889+2٫5=2٫5763555559)

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۶ذی الحجہ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب