03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خاتون کی وفات کے بعدوالدین کی طرف سےشادی کے موقع پردیئے گئے فلیٹ کا حکم
73783نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارےمیں کہ

 میری بہن شگفتہ جبین صدیقی کی شادی 1998میں سلیم اخترصدیقی سے ہوئی، میرے والدمرحوم نے اپنی مذکورہ بیٹی یعنی میری بہن شگفتہ کو اپنا  فلیٹ "بیت النعم" واقع سیکٹر 5-K نارتھ کراچی فلیٹ نمبر K-7 فرسٹ فلور دیا،مذکورہ بہن کےساتھ والد صاحب نےسیل ایگریمنٹ کیاجس کے کاغذات منسلک ہیں،فلیٹ ان کے نام کروایااورقبضہ بھی دیدیا،اب میری بہن شگفتہ جبین کا انتقال ہوگیا ہے،اوراس کی کوئی اولاد نہیں ہے اوراس کے ورثہ میں صرف شوہرسلیم اخترصدیقی اوردو بھائی نوید احمد صدیقی اوروسیم احمدصدیقی شامل ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہےکہ

      ١۔  میری بہن شگفتہ جبین کی میراث (فلیٹ)کی تقسیم کیسے ہوگی،اوراس فلیٹ  میں شوہر اورہربھائی کا کتناکتناحصہ ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  استفتاءکرنےوالےمذکورہ دونوں فریق دارافتاء جامعة الرشید میں حاضرہوئےتھے اوربذریعہ تحکیم فلیٹ کے علاوہ باقی چیزوں کے حوالےسے اس بات پر اتفاق کرچکے تھے کہ مرحومہ شگفتہ جبین نے ترکہ میں مذکورہ فلیٹ "بیت النعم" کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑاتھا،لہذا اس فتوے کا تعلق صرف فلیٹ سے ہوگا۔

 مرحومہ شگفتہ جبین کوشادی کے وقت  والدنے اپنی زندگی میں باقاعدہ سیل ایگریمنٹ کرکےجو فلیٹ "بیت النعم" کے نام سے مالک بناکردیا تھااوراس پرشگفتہ جبین کا قبضہ بھی کرادیا تھاوہ مرحومہ کےفوت ہونے کےبعداس کا ترکہ ہے،جس کا شرعی حکم یہ ہےکہ اس میں سے سب سے پہلے مرحومہ کے کفن  دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں گے ،البتہ اگر کسی نے یہ اخراجات بطور تبرع ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ، اس کے بعد اگرمرحومہ پرکوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی ہوگی، اس کے بعد  مرحومہ  نے اگرغیر وارث کے لیے ایک تہائی کی حد تک کوئی جائز وصیت کی ہوتو اس پر عمل کیا جائےگا،اس کے بعد جوبھی ترکہ باقی بچےوہ شرعی ورثہ یعنی خاوندسلیم اخترصدیقی اوربھائی نوید احمدصدیقی اوروسیم احمدصدیقی میں تقسیم کیاجائے گا،جس کا طریقہ یہ ہےکہ مذکورہ بالاتین حقوق(کفن دفن کے اخراجات ،قرض اورثلت تک وصیت ) کی ادائیگی کے بعد مذکورہ فلیٹ کو4برابرحصوںمیں تقسیم کرکے دوحصےیعنی 50فیصد خاوند سلیم اخترصدیقی کو اورایک ایک حصہ یعنی 25،25فیصد مرحومہ کے ہرہربھائی یعنی نوید احمد صدیقی اورسیم احمد صدیقی  کو دیاجائےگا۔

چونکہ فریقین نےدارالافتاء میں حاضرہوکراس پر اتفاق کیا تھاکہ وہ یہ فلیٹ سیل  آوٹ کرکے تقسیم کریں گے، اورکوئی فریق اس فلیٹ پر اضافی خرچوں کا دعوی نہیں کرے گا، بناء بریں یہ فلیٹ فروخت کیاجائےگا اورکوئی فریق اس کےفروخت میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا،اگرفروخت کے حوالے سےیافروخت کے وقت کے حوالےسےفریقین میں اختلاف ہوجائے تو دونوں فریق کسی تیسری پارٹی مثلاً ایسے پراپرٹی ڈیلرکےپاس یہ فلیٹ برائےسیل رکھوائیں گے جو دونوں کے ہاں معتمدہو،نیز فلیٹ کے اوریجنل فائل کے حوالے سےاگرفریقین میں کوئی  اختلاف  پیدا ہوجائے تو وہ فائل بھی کسی معتمدتیسری پارٹی کے پاس رکھواناہوگی، تاکہ سیل آوٹ کے بعد وہ تیسری پارٹی خود ہی یہ فائل فلیٹ کےخریدارکے حوالہ کرے،چونکہ فریقین نے مجیب (اس فتوے کاجواب لکھنے والے) کواپنی رضامندی سے حکم (فیصل) مقرر کیا تھا لہذا یہ فیصلہ اب فریقین کے لیے ماننا لازم ہوگا اورکسی کےلیے اس سے انکارکی گنجائش نہیں ہوگی ۔

حوالہ جات

وفي الہندیۃ:

لو جہز ابنتہ وسلمہ إلیہا لیس لہ في الاستحسان استردادہ منہا وعلیہ الفتویٰ۔ (۱؍۳۲۷ زکریا)

وفی الدر المختار للحصفكي - (ج 3 / ص 170)

(جهز ابنته ثم ادعى أن ما دفعه لها عارية وقالت هو تمليك أو قال الزوج ذلك بعد موتها ليرث منه وقال الاب) أو ورثته بعد موته (عارية ف) - المعتمد أن (القول للزوج، ولها إذا كان لعرف مستمرا أن الاب يدفع مثله جهازا لا عارية، و) أما (إن مشتركا) كمصر والشام (فالقول للاب)

اخرج سعید بن منصور في سننہ عن الشعبي یقول: إذا دخلت المرأۃ علی زوجہا بمتاع أو حلي، ثم ماتت فہ میراث، و إن أقام أہلہا البینۃ أنہ کان عاریۃ عندہا، إلا أن یعلموا ذٰلک زوجہا۔ (سنن سعید بن منصور)

وفی شرح السراجی فی تعریف الترکة (ص۲۷)

کل مایترکہ المیت من اموال صافیة عن تعلق حق الغیر بعین منھا.

السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي - (ج 6 / ص 100)

عن أبى حرة الرقاشى عن عمه أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال :« لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ».

قال في كنز الدقائق :

"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..."  (ص:696, المكتبة الشاملة)

قال اللہ تعالی :

ولكم نصف ما ترك أزواجكم إن لم يكن لهن ولد فإن كان لهن ولد فلكم الربع مماتركن من بعد وصية يوصين

 بها أو دين.

وفی السراجیة مع تسہیل السراجی (ص:۷١)

والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.

وفی الدرالمختار وردالمحتار:

  ینفرد احدھما بنقض التحکیم بعد وقوعہ(قبل الحکم) فان حکم لزمھما ولا یبطل حکمہ بعزلھما لصدورہ

عن ولایۃ شرعیۃ(کتاب القضاء باب التحکیم مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۸۲،ردالمحتار کتاب القضاء باب

 التحکیم داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۴۸.

وفی شرح الوقایة :

وصح التحکیم من صلح قاضیاولزمھماحکمہ بالبینة والنکول والاقرارِ.....ولکل منھما ان یرجع قبل حکمہ .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعة الرشید

یکم/محرم الحرام/١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب