021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بائع سے فروخت شدہ بکری خرید کرقربانی کرنے کاحکم
73832قربانی کا بیانقربانی کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

         ایک شخص نے عید سے ایک دن پہلے دوسرے شخص سے اپنی قربانی کےلیےجانورخریدا ،معاملہ مکمل ہوگیا اورنے کہاکہ میں  کل عید کے دن جانورکی قیمت دیکر اپنا جانورلے جائے گا،خریدا رکے جانے کےبعد ایک اورخریدارآیا اوراس نے پہلے خریدارسے زیادہ قیمت پر اس کو خریدناچاہا ،بائع نے اس کو کہا بھی کہ جانورفروخت ہوچکاہے مگروہ بضد رہا اورآکر کاربائع وہ جانور جو فروخت کرچکاتھا ،صرف قیمت لینا باقی تھی اس دوسرے خریدا پر فروخت کردیا اوردوسرے خریدارنے لیجاکر اپنی طرف سے اس کی واجب  قربانی کی ،اب پوچھنایہ ہےکہ کیا اس دوسرے شخص کی قربانی اد ا  ہوئی یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر پہلاخریدادوسرے خریدارسےزندہ جانورکی قیمت لے لے اور مالک کو دیدے تو اس صورت میں دوسرے خریدارکی قربانی ہوجائےگی اوراگروہ قیمت دوسرے خریدارسے نہ لے یااس سے ذبح شدہ جانورلے لے کراصل مالک کو قیمت دیدےتو پھر ان دوصورتوں میں دوسرے خریدارکی قربانی نہیں ہوگی ،اب ایام گزرنے کی وجہ سےایک متوسط بکرے کی قیمت صدقہ کرنا ہوگی ۔

حوالہ جات
وفی فتاوی قاضیخان
رجل ذبح اصحیة غیرہ عن نفسہ  بغیر امرہ فان ضمنہ المالک قیمتھایجوز عن الذابح دون المالک لانہ ظھر ان الاراقة حصلت علی ملکہ وان اخذھا مذبوحة تجزئ عن المالک لانہ قد نواھافلیس یضرہ ذبح غیرہ لھا کذافی محیط السرخسی .
وفی بدائع الصنائع کتاب الاضحیة 
فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية، والثاني ملك المحل ; وهو أن يكون المضحى ملك من عليه الأضحية ، فإن لم يكن لا تجوز لأن التضحية قربة ولا قربة في الذبح بملك الغير بغير إذنه ، وعلى هذا يخرج ما إذا اغتصب شاة إنسان فضحى بها عن نفسه أنه لا تجزيه لعدم الملك ولا عن صاحبها لعدم الإذن ثم إن أخذها صاحبها مذبوحة وضمنه النقصان فكذلك لا تجوز عن التضحية وعلى كل واحد منهما أن يضحي بأخرى لما قلنا ، وإن ضمنه صاحبها قيمتها حية فإنها تجزي عن الذابح لأنه ملكها بالضمان من وقت الغصب بطريق الظهور والاستناد فصار ذابحا شاة هي ملكه فتجزيه لكنه يأثم ; لأن ابتداء فعله وقع محظورا فتلزمه التوبة والاستغفار ، وهذا قول أصحابنا الثلاثة .... وإن مضت أيام النحر فعلى الذابح أن يتصدق بقيمة شاة وسط ولا يلزمه التصدق بقيمة تلك الشاة المشتراة ; لأنه بالاستحقاق تبين أن شراءه إياها للأضحية والعدم بمنزلة.
في (المنتقى):
رجل غصب أضحية غيره، وذبحها عن نفسه، وضمن القيمة لصاحبها أجزأه ما صنع، والذبح يخالف الإعتاق، فإن الغاصب إذا أعتق ثم ملكه بأداء الضمان لا ينفذ.والفرق: أن عند أداء الضمان يثبت للغاصب الملك مستندًا إلى وقت الغصب السابق، والمستند فائت للحال من وجه، ومن ذلك الوقت من وجه، وكان الملك فيما بين الغصب وأداء الضمان ثابتًا من وجه، ومثل هذا الملك لا يكفي لنفاذ العين، ويكفي لنفاذ القرب أصله المكاتب إذا أعتق، وإذا حضر ونصب بهدي من كسبه، وعن أبي يوسف: أنه لا يجزئه الذبح عن نفسه بأداء الضمان، وفاتته بالإعتاق، وهكذا روى ابن رستم عن محمد؛ هذا إذا ضمن الغاصب قيمتها للمالك، وإن اختار المالك أحدها مذبوحة، فعلى الذابح أن يعيد الذبح بلا خلاف.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

1/1/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب