021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شانگلہ میں موسمِ گرماکے بعض دنوں میں عشاء کی اذان نقشے میں درج وقت سے پہلے دینا
73815نماز کا بیاننماز کی شرائط کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارےمیں کہ

ہم گرمی کے موسم میں بعض اوقات اذان نقشے کے مطابق نہیں دیتےبلکہ اس سےکچھ پہلے دیتے ہیں اورنماز نقشے کے مطابق پڑھتے ہیں،مثلاً عشاء کاوقت  8: 54پرشروع ہوتاہے تو ہم اذان 8:45پر دیدیتے ہیں،اورپھر نماز وقت داخل ہونے کےبعد9:00پڑھتے ہیں،تو وقت سے پہلے اذان دینا اوراس اذان پر نمازپڑھنے کا کیاحکم ہے؟

واضح رہے کہ ہمارے علاقے کا نقشہ صلاة مولانافضل محمد سواتی صاحب کا بنایاہواہے جو بنوری ٹاؤن میں استاذرہ چکا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

    واضح رہے کہ عام طور پر نمازوں کے نقشوں میں عشاءکی نماز کا وقت شفقِ ابیض کے مطابق لکھا ہواہوتا ہے، اگرآپ کے علاقے کا نقشہ بھی اسی کے مطابق ہےیعنی 18درجے پربناہواہے تومسئولہ صورت میں وقت پرپڑھنے کی وجہ سےنمازتو بہرحال بلااختلاف صحیح ہوگئی،رہی بات نقشے میں درج وقت سے پہلے اذان دینے کی تو اگرچہ احتیاط اذان کے حوالے سےبھی اسی میں ہے کہ نقشے میں لکھے ہوئے وقت کے مطابق دی جائے اوراس سے پہلےنہ دی جائے تاکہ نماز کی طرح اذان بھی بلااختلاف صحیح ہوسکے، تاہم اگرکبھی اذان 18درجے پربنے ہوئے نقشے میں درج وقت سے پہلے دی جائے تو یہ دیکھناہوگا کہ وہ کہیں شفقِ احمر کے غروب ہونے سے پہلے تو نہیں دی گئی، اگردی گئی ہےتو اذان نہیں ہوئی، کیونکہ شفقِ احمر سےپہلے کسی بھی حنفی فقیہ کے نزدیک عشاء کا وقت شروع نہیں ہوتا،اس لیےوقت سےپہلےہونےکی وجہ سے یہ اذان نہیں ہوگی اوراگرشفقِ احمرکےغروب ہونے کے بعد دی گئی ہو تو اس طرح کی اذان صحیح ہوجائےگی،اس لیے کہ عشاء کےوقت کےشروع ہونے میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک عشاء کا وقت شفقِ احمر کے غروب  ہونےکے بعد شروع ہوتاہےجبکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں شفقِ ابیض کے غروب ہونےکے بعد شروع ہوتا ہے۔دونوں ہی قول مفتٰی بہ ہیں ، لہذ ا اگرکسی علاقے میں اعذار کی بناء پر لوگ عشاء کی نماز جلدی پڑھنا چاہتے ہیں،تو وہ اگر عشاءِ اول کے وقت میں نماز پڑھ لیں تو بلاشک وشبہ ان کی نماز درست ہو جائے گی،اورنماز درست ہوسکتی ہے تو صرف اذان تو بطریقِ اولی درست ہوسکےگی ۔

     شفقِ احمرکب غروب ہوتاہے؟ اس میں اختلاف ہے،بعض محققین کے قول کےمطابق 12درجے اوربعض کےقول مطابق 15درجے سورج کے زیرِ افق جانے پرشفقِ احمرغروب ہوتاہے، دونوں ہی قول دلائل اورمشاہدات پر مبنی ہیں، لہذاان میں سےبھی کسی قول پرعمل کیاجاسکتاہے۔تاہم عبادات میں چونکہ  احتیاط کا پہلو اختیار کرنا بہترہوتاہے اس لیے عشاء اول کے لیے 15درجے لینا زیادہ بہتر ہے، تاہم اگر کوئی مریض اس وقت تک انتظار کرنے میں بھی تکلیف محسوس کرتاہو تو وہ عشاء اول لیے 12درجے والاقول بھی لےسکتاہے۔تاہم 12 درجےسے پہلے عشاء کی نماز پڑھنااوراذان دینا صحیح نہیں ہوگا ورنہ تو یہ وقت سے پہلے سمجھی جائے گی اورصحیح نہیں ہوگی۔

اب 12/15 درجےکاوقت کب شروع ہوتاہے تو وہ مختلف موسموں اورمختلف علاقوں میں  مختلف اوقات میں شروع ہوتاہے،لہذا اس کےلیے آپ کواپنے علاقے کا نام اورطول وعرض لکھ کر ہمارے دارالافتاء سے ایک نقشہ حاصل کرنا ہوگا۔

حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية (1/ 53)
تقديم الأذان على الوقت في غير الصبح لا يجوز اتفاقا وكذا في الصبح عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى وإن قدم يعاد في الوقت. هكذا في شرح مجمع البحر الرائق لابن الملك وعليه الفتوى. هكذا في التتارخانية ناقلا عن الحجة وأجمعوا أن الإقامة قبل الوقت لا تجوز. كذا في المحيط.
الفتاوى العالمگیرية (1/ 54)
ويكره أداء المكتوبة بالجماعة في المسجد بغير أذان وإقامة.
وفی الدر المختار للحصفكي - (ج 1 / ص 390)
(و) وقت (المغرب منه إلى) غروب (الشفق وهو الحمرة) عندهما، وبه قالت الثلاثة وإليه رجع الامام كما في شروح المجمع وغيرها، فكان هو المذهب (و) وقت (العشاء والوتر منه إلى الصبح.
وفی رد المحتار - (ج 3 / ص 113)
( قوله : و إليه رجع الإمام ) أي إلى قولهما الذي هو رواية عنه أيضا ، وصرح في المجمع بأن عليها الفتوى ، ورده المحقق في الفتح بأنه لا يساعده رواية ولا دراية إلخ .وقال تلميذه العلامة قاسم في تصحيح القدوري : إن رجوعه لم يثبت ، لما نقله الكافة من لدن الأئمة الثلاثة إلى اليوم من حكاية القولين ، ودعوى عمل عامة الصحابة بخلافه خلاف المنقول .قال في الاختيار : الشفق البياض ، وهو مذهب الصديق ومعاذ بن جبل وعائشة رضي الله عنهم .قلت : ورواه عبد الرزاق عن أبي هريرة وعن عمر بن عبد العزيز ، ولم يرو البيهقي الشفق الأحمر إلا عن ابن عمر ، وتمامه فيه .وإذا تعارضت الأخبار والآثار فلا يخرج وقت المغرب بالشك كما في الهداية وغيرها .قال العلامة قاسم : فثبت أن قول الإمام هو الأصح ، ومشى عليه في البحر مؤيدا له بما قدمناه عنه ، من أنه لا يعدل عن قول الإمام إلا لضرورة من ضعف دليل أو تعامل بخلافه كالمزارعة ، لكن تعامل الناس اليوم في عامة البلاد على قولهما ، وقد أيده في النهر تبعا للنقاية والوقاية والدرر والإصلاح ودرر البحار والإمداد والمواهب وشرحه البرهان وغيرهم مصرحين بأن عليه الفتوى .وفي السراج : قولهما أوسع وقوله أحوط ، والله أعلم .[ تنبيه ] قدمنا قريبا أن التفاوت بين الشفقين بثلاث درج كما بين الفجرين فليحفظ..... ( قوله : منه ) أي من غروب الشفق على الخلاف فيه بحر .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

یکم/محرم/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / شہبازعلی صاحب