021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پیشگی کرایہ یاقرض پر زکوۃ کا حکم
73878اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ایک صاحب کی بیوی کے پاس رہائشی پلاٹ تھا، لیکن اس پر مکان کی تعمیر کرنے کے لیے پیسے کم تھے، ان صاحب نے اپنی بیوی کو دس سال کا ایڈوانس کرایہ جو کہ پچاس لاکھ بنتا تھا ،دے دیا تاکہ وہ مکان تعمیر کر لیں، اور وہ دونوں اس میں رہ سکیں، وہ رقم مکان پر لگ گئی اور مکان تیار ہوگیا،ایڈوانس کرایہ اس لیے کہ رہائش فراہم کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے، اس رقم کا بقایا حصہ قابل واپسی صرف اس صورت میں ہے جب دس سال سے پہلے شوہر یا بیوی کا انتقال ہوجائے اور وراثت کی تقسیم کا معاملہ ہو یا کسی اور وجہ سے مکان بیچنا پڑ جائے، کیا اب شوہر کو ان پچاس لاکھ روپوں کی بقایا پر ہر سال زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کوئی شخص(کرایہ دار) مالک کو کئی سالوں کا پیشگی کرایہ دیدے تو ایسی صورت میں فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق  اس  کی زکوۃ مالک پر ہوگی ،کرایہ دار پر نہیں،(فتاوی حقانیہ:ج۶،ص ۵۰۷، ۵۵۳)لیکن صورت مسؤولہ میں چونکہ یہ رقم مکان کی تعمیرکے لیے تعمیر سے قبل پیشگی کرایہ کےنام سے دی گئی ہے،لہذایہ درحقیقت قرض ہےاور اس کی زکوۃ کرایہ دار(شوہر) پر لازم ہوگی،جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک سال  کے کرایہ سے زائد جس قدررقم ہے، اس کی زکوۃ لازم ہوگی، اسی طرح ہر سال کی زکوۃ اس سال کی کرایہ کی رقم منہا کرکے ادا کرنا لازم ہوگی۔البتہ اگر باقی ماندہ قرض پر از سر نو کرایہ داری کامعاملہ کیا جائے توایسی صورت میں یہ پوری رقم مالک مکان یعنی بیوی کی ملکیت ہوجائے گی اوراس کی زکوۃ کرایہ دار(شوہر) پر لازم نہ ہوگی۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۶محرم ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب