021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی جماعت نکل جانے کا حکم﴿ مسجد کی جماعت نکل جانے کی صورت میں جماعت ثانیہ اٰفضل ہے یاانفرادی نماز؟﴾
73847نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

ہمارا لاہور میں ایک عصری تعلیمی ادارہ  ہے، نماز کے اوقات میں کچھ کلاسز اپنے اساتذہ کے ساتھ باجماعت نماز ادارے کے قریب واقع مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں، جو طلبہ رہ جاتے ہیں وہ بعد میں مسجد سے ملحقہ جگہ میں  جہاں پر اوپر خطیب صاحب کی رہائش ہے، اور نیچے مدرسہ ہے وہاں جماعت سے نماز پڑھ لیتے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ

۱۔ کیا ایسی جگہ جو مسجد سے ملحقہ ہو ،لیکن مسجد کی حدود سے باہر ہو کیا وہاں پر دوسری جماعت کروانا جائز ہے؟

۲۔ان طلبہ کے لیےکیا بہتر ہےکہ یہ مدرسہ والی جگہ پر جماعت سے نماز پڑھیں یا مسجد میں علیحدہ انفرادی نماز ادا کریں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔جائز ہے۔

۲۔اگر قریب میں دوسری مسجد میں جماعت مل سکے تواس میں نماز ادا کرنا بہتر ہے،ورنہ مسجد کی حدود سے باہر کسی جگہ باجماعت نمازپڑھنا مسجد میں اکیلے نماز پڑھنےسے زیادہ بہتروافضل ہے، البتہ اگر مسجد میں داخل ہونے کے بعد جماعت ہونے کا علم ہوجائے تو ایسی صورت میں مسجد میں اکیلے پڑھنا بہتر ہے۔

واضح رہے کہ مسجد کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ ہے، جس کا بلا عذر چھوڑنا یا مستقل چھوڑنے کا معمول بناناجائزنہیں،لہذابلاعذرخارج ازمسجداقامت جماعت مکروہ تحریمی وبدعت ہے۔

(احسن الفتاوی:ج۳،ص۲۷۱ تا ۲۷۳)

حوالہ جات
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (1/ 423)
عن أبي هريرة قال: قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: "من توضأ فأحسن وضوءه، ثم راح فوجد الناس قد صلوا، أعطاه الله عز وجل مثل أجر من صلاها وحضرها، لا ينقص ذلك من أجرهم شيئا"
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (1/ 422)
عن سعيد بن المسيب، قال:حضر رجلا من الأنصار الموت فقال: إني محدثكم حديثا ما أحدثكموه إلا احتسابا، سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "إذا توضأ أحدكم فأحسن الوضوء ثم خرج إلى الصلاة، لم يرفع قدمه اليمنى إلا كتب الله عز وجل له حسنة، ولم يضع قدمه اليسرى إلا حط الله عز وجل عنه سيئة، فليقرب أحدكم أو ليبعد، فإن أتى المسجد فصلى في جماعة غفر له، فإن أتى المسجد وقد صلوا بعضا وبقي بعض، صلى ما أدرك وأتم ما بقي كان كذلك، فإن أتى المسجد وقد صلوا فأتم الصلاة كان كذلك"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 367)
وفي فتح القدير وإذا فاتته لا يجب عليه الطلب في المساجد بلا خلاف بين أصحابنا بل إن أتى مسجدا للجماعة آخر فحسن، وإن صلى في مسجد حيه منفردا فحسن، وذكر القدوري يجمع بأهله ويصلي بهم يعني وينال ثواب الجماعة، وقال شمس الأئمة الأولى في زماننا تتبعها وسئل الحلواني عمن يجمع بأهله أحيانا هل ينال ثواب الجماعة أو لا قال لا ويكون بدعة ومكروها بلا عذر.
الفتاوى الهندية (1/ 82)
وإذا فاتته الجماعة لا يجب عليه الطلب في مسجد آخر بلا خلاف بين أصحابنا لكن إن أتى مسجدا آخر ليصلي بهم مع الجماعة فحسن وإن صلى في مسجد حيه فحسن وذكر القدوري أنه يجمع في أهله ويصلي بهم وذكر شمس الأئمة الأولى في زماننا إذا لم يدخل مسجد حيه أن يتبع الجماعات وإن دخله صلى فيه.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۸محرم ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب