021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثتی پلاٹ سےاسکول بنایااورمزیدپلاٹ خریدےگئےتووراثت کی تقسیم کیسےہوگی؟
73906میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:محترم مفتی صاحب!السلام علیکم!ایک وراثت کامسئلہ درپیش ہے،برائےمہربانی اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟بڑےآسان لفظوں میں راہنمائی فرمائیں۔

وراثت میں ایک  120گزکامکان ہے،والدصاحب کےانتقال کےبعدذریعہ معاش کےلیےبھائی بہنوں نےمل کراسکول کھولا،اسکول سےآمدنی ہونےلگی،جس سےاسکول تین منزلہ بنایاگیا،اس کی آمدنی سےدوسری پراپرٹی خریدی گئی،جس میں ایک مکان،دوپلاٹ وغیرہ بھی خریدےگئے،اس کےعلاوہ ایک 60گزکامکان جسےبیچ کرکسی کےساتھ پارٹنرشپ میں ایک بڑامکان خریداگیا۔

امی کےانتقال کےبعدان کےکچھ زیورات بھی ہیں،اسکول کھولےہوئے،25سے27سال ہوچکےہیں،اسکول میں نیچےرہائش ہے،اوپراسکول ہے،اسکول کی آمدنی سےدوکیمپس اورکھولےگئےہیں۔

اب معلوم یہ کرناہےکہ:

 کیااسکول کی قیمت وراثت کی تقسیم کےوقت صرف رہائشی حصےکی لگائی جائےگی،یاپورےگھرکی جوکہ گراؤنڈپلس ٹوہے؟والدین نےگھرکسی کےنام پرنہیں کیاتھا،البتہ اسکول میں سب سےزیادہ محنت بڑےبھائی نےکی ہے۔

اس اسکول کی آمدنی میں سےخریدی گئی تمام پراپرٹی بھی وارثوں میں تقسیم ہوگی یانہیں ؟

کچھ پراپرٹی کرایےپردی ہوئی تھی،کئی سالوں سےکرایہ آرہاتھا،اس کاکیاحساب کتاب ہوگا؟کیونکہ وہ کرایہ کبھی بجلی کےبلوں میں،کبھی کچھ بنانےمیں خرچ ہواہے،اورباقی کاکچھ معلوم نہیں۔

امی کےزیورات کیاسب میں تقسیم ہونگے؟کیاوارثوں کےعلم میں لائےبغیران زیورات کوبیچ سکتےہیں؟

وارثوں میں دوبھائی،چھ بہنیں،جس میں پانچ بہنیں حیات ہیں،ایک بہن کاانتقال ہوگیاہے،اس کی تین بیٹیاں ہیں،جوکہ حیات ہیں،اورشادی شدہ ہیں،برائےمہربانی اس کاجواب تحریری دیجیےگا۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اسکول(پورےگھر)اوراس سےحاصل ہونےوالی مکمل آمدنی میراث  میں تقسیم ہوگی۔

جس بھائی کی محنت زیادہ لگی ہےاگراس کامطلب یہ ہےکہ اس نےوراثت کی کمائی کےعلاوہ ذاتی رقم بھی لگائی ہےتوجتنی ذاتی رقم لگائی ہے،وراثت کی تقسیم کےوقت اس  کےبقدروہ دیگر بہن بھائیوں سےلےسکتاہے۔

جتناکچھ وراثت کےمال سےخریداگیاہے،ان تمام پلاٹوں،مکان،زیورات اورتمام جائیدادکی قیمت لگوائی جائےگی،وراثت کی تقسیم کےوقت جوقیمت ہو،اس کےاعتبارسےوراثت کےحصےتقسیم کردیےجائیں۔

جوپراپرٹی کرایہ پردی ہوئی تھی،ان کااندازالگایاجائےکہ کتنی آمدنی ہوئی،اورکس نےوصول کی،ساتھ ساتھ وراثت کی تقسیم کےوقت دیکھاجائےکہ ہروارث کاکتناحصہ بنتاہے۔

اگرکرایہ کی رقم اجتماعی طورپراخراجات کےلیےاستعمال ہوئی یااس کااندازہ لگانابہت مشکل ہوتومیراث کی تقسیم کےوقت کرایہ کی رقم کوآپس میں معاف کردیاجائے،لیکن اگرکسی وارث نےکرایہ کی رقم کوخودذاتی استعمال میں صرف کیا ،تواس کوملنےوالےمیراث کےحصےمیں اس کےبقدررقم منہاکی جاسکتی ہے۔

والدہ کےتمام زیورات بھی تمام ورثہ میں وراثت کےمطابق تقسیم ہونگے،دیگرورثہ کوبتائےبغیران کوبیچناجائزنہیں ہوگا۔

سوال میں ذکرکردہ ورثہ کی تفصیل کےمطابق میراث اس طرح تقسیم کی جائےگی کہ بھائیوں کوبہنوں کےمقابلےمیں دوگناحصہ ملےگا۔

جس بہن کاانتقال ہواہے،اگروہ والدہ سےپہلےفوت ہوئی ہےتووہ والدہ کی میراث کی حق دارنہ ہوگی ورنہ وہ بھی والدین کی میراث میں شریک ہوگی،اوراس کاحصہ اس کی اولاد میں تقسیم ہوگا۔

اگرکچھ ورثہ اس پراپرٹی کو بیچ کررقم تقسیم کرنےپرراضی نہ ہوں،توجس وارث کےپاس جومکان،پلاٹ وغیرہ ہیں،ان کی مارکیٹ ویلیولگوائی جائے،اوروراثت میں اس کےحصہ کااندازہ لگاکرکمی بیشی برابر کرلی جائے۔

مثلاایک وارث کےپاس پلاٹ ہے،جس کی قیمت اوراس سےملنےوالاکرایہ  10 لاکھ کےقریب ہے،اوراس وارث کاوراثت کاحصہ بھی مثال کےطورپر 10 لاکھ ہی بنتاہے،توتمام ورثہ کی رضامندی سےاس وارث کووہ پلاٹ  بھی دیا جاسکتاہے،اوراگرپلاٹ کی قیمت زیادہ ہے،وراثت کاحصہ کم بنتاہےتووہ وارث بقیہ ورثہ کواس کےبقدررقم واپس کرےگااوراگروراثت کاحصہ زیادہ بنتاتھا،پلاٹ کی قیمت کم تھی تووہ وارث بقیہ ورثہ سےاس کےبقدراپناحصہ وصول کرسکتاہے،مگراس طرح معاملہ کےلیےدیگرسب ورثاء کارضامندہوناضروری ہے۔

اس طرح میراث کی تقسیم میں عفوودرگزرسےکام لیاجائےاورتقسیم میں ہرایک دوسرے کاحق مکمل دینےکی کوشش کرےتوامیدہےکہ میراث کی تقسیم شریعت کےمطابق کرنےمیں کوئی مشکل پیش نہ آئےگی۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی فی سورۃ النساء:یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثیین۔
"تفسير ابن كثير" 2 /   225 : فقوله (6) تعالى: { يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين } أي: يأمركم بالعدل فيهم، فإن أهل الجاهلية كانوا يجعلون جميع الميراث للذكور دون الإناث، فأمر الله تعالى بالتسوية بينهم في أصل الميراث، وفاوت بين الصنفين، فجعل للذكر مثل حظ الأنثيين؛ وذلك لاحتياج الرجل إلى مؤنة النفقة والكلفة ومعاناة التجارة والتكسب وتجشم المشقة، فناسب أن يعطى ضعفي ما تأخذه الأنثى۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

12/محرم الحرام 1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب