021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدنےپگڑی کی رقم دےکردکان  کرایہ پر لی تووفات کےبعددکان میراث میں شمارہوگی؟
73907سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

سوال:جناب مفتی صاحب سلام کےبعدعرض یہ ہےکہ ہم تین بھائی اوردوبہنیں ہیں،ہمارےوالدصاحب نےتقریبا28سال پہلےدوعددکانیں جوکہ ناظم آبادنمبر5مین روڈپرواقع ہیں،وہ جس کےپاس تھیں ان سےاس وقت 125000(مبلغ ایک لاکھ پچیس ہزارروپے)دےکرلی تھیں،اورمالک مکان نےکرایہ کاایگریمنٹ کیاتھا،اس مکان میں اوربھی دکانیں ہیں،جس کےساتھ مالک مکان نےکرایہ کاایگریمنٹ کیاہواتھاسب پرانےہیں۔

ہمارےوالدصاحب کےانتقال کےبعدہم بھائیوں کالڑائی جھگڑاہوا،جس کےبعدمیں وہاں سےچلاگیا،میں اپنی بیوی کےساتھ پہلےہی الگ رہائش پذیرتھامیں کسی کےساتھ اس کی دکان پرجاکر بیٹھ گیا،اوراسٹیٹ ایجنسی کاکام کرتارہا،کچھ عرصہ بعدہم بھائیوں کاآپس میں میل جول شروع ہوگیا،اس وقت ہماری والدہ حیات تھی،تومیں نےایک بھائی جوکہ آسٹریلیامیں رہتاہےاس کوکہاکہ ایک دکان مجھے دےدوتاکہ میں اپنااسٹیٹ ایجنسی کاکام کرسکوں،جس پرمیرےبھائی نےکہاکہ آپ دونوں ایک ہی کام کرتےہوآپس میں لڑائی جھگڑاہوگا،آپ ایساکرو کہ دونوں بھائی ایک ساتھ مل کرکام کروجس پرمیں راضی نہ ہوا،اب وہ مکان کسی پارٹی نےبغیردکانوں کےخالی کیےمالک مکان سےخریدلیاہےاورتمام دکانداروں کورقم ادا کرکےان دکانوں کاقبضہ لےلیاہے،میرےدونوں بھائیوں نےمجھے اطلاع دیےبغیرخریدارپارٹی سےہماری دکانوں کےبدلے225000(مبلغ بائیس لاکھ پچاس ہزارروپے)لےکردکانیں خریدارپارٹی کودےدی ہیں،مجھے اس بات کاعلاقہ سےپتہ چلاتوجومیرابھائی آسٹریلیامیں ہےمیں نےاس سےبات کی اورکہاکہ مجھےمیراشرعی حصہ دوتواس نےکہاکہ آپ توچھوڑکرچلےگئےتھے،آپ کاشرعی حصہ نہیں بنتا،دوبارہ تقاضاکرنےپراس نےکہاکہ آپ 400000(مبلغ چارلاکھ روپے)لےلو،کیونکہ کرایہ وغیرہ چھوٹےبھائی نےاداکیاہے،جس پرمیں نےاس سےکہاکہ اگراس نےکرایہ وغیرہ اداکیاہےتوکاروباربھی کیاہے،اورایک دکان کرایہ پردےرکھی تھی،مجھے میراشرعی حصہ چاہیے۔

آپ سےمؤدبانہ گزارش ہےکہ یہ بتائیں کہ میراشرعی حصہ بنتاہےیانہیں؟

اگرشرعی حصہ بنتاہےتوکتنابنتاہے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

o

صورت مسئولہ میں) agreement of Tenancy)کرایےکےمعاہدےکےمطابق والدنےشروع میں جورقم بطورپگڑی کےدی تھی،شرعارشوت یاحق مجردکاعوض ہونےکی وجہ سےاس رقم کالین دین جائزنہیں،اس رقم کےدینےکی وجہ سےکرایہ پرلینےوالےشخص کی شرعاملکیت نہیں آتی،بلکہ یہ اصل مالک کی شمارہوتی ہے۔

مذکورہ بالاتفصیل کےمطابق چونکہ یہ دکانیں والدکی ملکیت نہیں تھیں،تومذکورہ دکانوں پرمیراث کاحکم لاگونہیں ہوگا،البتہ جتنی رقم والدنےبطورپگڑی دی تھی وہ والدکی ملکیت تھی جواب ان کےسب ورثاء میں ان کےحصوں کےمطابق تقسیم ہوگی،والدسےجس بیٹےنےوہ دکانیں لیں،اوران کاکرایہ اداء کرتارہاتوان دکانوں سےحاصل شدہ کمائی اس کی ذاتی شمارہوگی،اس کی کمائی میں دیگربھائی شریک نہیں ہونگے۔

موجودہ صورت میں ان دکانوں میں آپ کاحصہ نہیں ہوگا،دکانوں کےجوپیسےبھائیوں نےلیےہیں،وہ ان کےلیےبھی لیناجائزنہیں،بلکہ اس میں سےدی ہوئی پگڑی کےبقدررقم رکھ کربقیہ رقم دوکانوں کےاصل مالک کوواپس کرناضروری ہوگا۔

حوالہ جات
"حاشية رد المحتار" 5 / 22: قوله: (لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة على الملك) قال في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنهاأقول: وكذا لا تضمن بالاتلاف۔
قال في شرح الزيادات للسرخسي: وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان، لان الاعتياض عن مجرد الحق باطل، إلا إذا فوت حقا مؤكدا، فإنه يلحق بتفويت حقيقة الملك في حق الضمان كحق المرتهن، ولذا لا يضمن بإتلاف شئ من الغنيمة أو وطئ جارية منها قبل الاحراز، لان الفائت مجرد الحق وأنه غير مضمون۔۔۔۔
"رد المحتار" 18 / 264:
( قوله : وفي معين المفتي) أفاد به أن الخلو إذا لم يكن عينا قائمة لا يصح بيعه۔
"البحوث فی القضایاالفقہیۃ المعاصرۃ" 107/1:
ومن ھذالنوع ماراج فی کثیر من البلدان من بیع خلو الدار والحوانیت۔۔۔۔۔ واصل  الحکم فی ھذالخلو عدم الجواز لکونہ رشوۃ اوعوضا عن حق مجرد۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

12/محرم الحرام 1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب