021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہر میں مشروط زیادتی کا حکم
77581نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

میرے والد صاحب نےمیرے نکاح کے وقت میری بیوی کےلئے پانچ تولہ سونا لکھااورساتھ یہ بھی لکھا کہ گھر میں لڑائی جھگڑے کی صورت میں  رہائشی مکان، جائیدادسے میرا حصہ خود الگ کر کے میری بیوی کو حق مہر میں ادا کرے گا،یعنی دو چیزیں بطورمہر مقرر کی ہیں، ایک پانچ تولہ سونا یہ موجل ہے،دوسرامکان اور جائیدادمیں میرے حصے کے بقدر مکان اورجائیداد،یہ بھی مہر میں ادا کرے گا،لیکن اس کی ادائیگی جھگڑے کی صورت میں ہوگی، یہ سب میرے والد نے لکھا ہے، میں نے نہیں،اوراس نے  دینے کا التزام بھی اپنے اوپر کیا ہے،نکاح نامہ میں یہی لکھا گیاہے۔میرا سوال یہ ہےکہ کیا  میری بیوی میرے والد سے اس  حق مہر کا مطالبہ کرسکتی ہے؟اور یہ اس کاحق ہے یا نہیں؟جبکہ اب گھر میں جھگڑےشروع ہوچکے ہیں،میرے والداگر مجھے عاق کردےتو کیامیری بیوی اس مہر کا مطالبہ نہیں کرسکتی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤولہ میں اگرلڑائی کی صورت  میں  گھر اور جائیداد میں سے لڑکےکا حصہ دیا جانا مستقل مہر کے طور پر نہ ہو،بلکہ اضافی شرائط کے طور پر ہو تو یہ تعزیر بالمال ہے،جوشرعاجائزومعتبرنہیں،البتہ اگریہ دو دونوں چیزیں مستقل حق مہر کے طور پر لکھی گئی ہوں توبھی حضرت امام صاحب کے راجح قول پر ان  میں  سےپانچ تولہ سونا ہی مہر ہوگا ،چنانچہ صرف یہی مقدار بیوی کا حق واجب ہوگاجس کی ادائیگی  متعلقہ قید تاجیل کے ساتھ لازم ہوگی ،جووہ لڑکے کے والد سےہی حاصل کرنے کا حق رکھے گی، چاہے باپ بیٹے کو عاق ہی کیوں نہ کردے،اور اس صورت  میں بھی لڑائی کی صورت میں جائیداد اور گھر  میں سے لڑکےکے حصہ کی مشروط ادائیگی مہر کے طور پر لازم نہیں ہوگی، لہذا اسے اس کے مطالبہ کا حق بھی نہیں رہےگا۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 307)
ولو تزوج امرأة على ألف إن لم يكن له امرأة وعلى ألفين إن كانت له امرأة أو تزوجها على ألف إن
 لم يخرجها من بلدها وعلى ألفين إن أخرجها منها وتزوجها على ألف إن كانت مولاة وعلى ألفين إن كانت عربية وما أشبه ذلك فلا شك أن النكاح جائز وأما المهر فالشرط الأول جائز بلا خلاف فإن وقع الوفاء به فلها ما سمى على ذلك الشرط، وإن لم يقع الوفاء به فإن كان على خلاف ذلك أو فعل خلاف ما شرط فلها مهر مثلها لا ينقص من الأقل ولا يزاد على الأكثر وهذا قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى -: الشرطان جائزان، كذا في البدائع
فتاوى قاضيخان (1/ 162)
رجل تزوج امرأة على ألفي درهم إن كانت جميلة وعلى ألف وإن كانت قبيحة قالوا يصح النكاح والشرطان عندهم حتى لو كانت جميلة كان المهر ألفي درهم وإن كانت قبيحة كان المهر ألفا لأنه لا خطر في التسمية لأنها إما أن تكون قبيحة أو جميلة بخلاف ما إذا تزوجها على ألف إن أقام بها وعلى ألفين إن أخرجها من بلدها فإن الشرط الثاني لا يصح عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى لأن ثمة تعلقت التسمية بما لا يعرف وجوده وقت العقد فلا تصح التسمية
الفتاوى الهندية (1/ 326)
وإذا زوج ابنه الصغير امرأة وضمن عنه المهر وكان ذلك في صحته؛ جاز إذا قبلت المرأة الضمان وإذا أدى الأب ذلك إن كان الأداء في حالة الصحة لا يرجع على الابن بما أدى استحسانا إلا إذا كان بشرط الرجوع في أصل الضمان، كذا في الذخيرة. ثم للمرأة أن تطالب الولي بالمهر وليس لها أن تطالب الزوج ما لم يبلغ فإذا بلغ تطالب أيهما شاءت، كذا في التبيين۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ولو كان الابن كبيرا وضمن الأب عنه بغير أمره في صحته ثم مات الأب وأخذت المرأة من تركته لم ترجع ورثته بالإجماع والمجانين كالصبيان في ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان. هذا كله إذا حصل الضمان في حالة الصحة وإذا حصل الضمان في مرض الموت فهو باطل؛ لأنه قصد بهذا الضمان إيصال النفع إلى الوارث والمريض محجور عن ذلك فلا يصح، كذا في الذخيرة.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۲محرم۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب