021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ بلڈنگ کی ملکیت اور کرایہ کی تقسیم کا طریقۂ کار
73972شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درجِ ذیل کے معاہدے کے بارے میں:-

فریقِ اول: محمد شفیق ولد محمد شفیع (مرحوم)، فریقِ دوم: محمد شفیع ولد حاجی منیر الدین (مرحوم)، اور فریقِ سوم: معظم علی ولد ناظم علی کے مابین ایک معاہدہ ہوا۔ معاہدہ یہ ہوا کہ فریقِ اول اور فریقِ سوم کا ایک عدد خالی ملکیتی پلاٹ تقریبا پندرہ (15) مرلہ واقع چوک فوارہ بھاول پور ہے جس میں فریقِ اول کا حصہ 11.159  مرلہ، جبکہ فریقِ سوم کا حصہ 4.27 مرلہ ہے۔ اس پلاٹ پر فریقِ دوم اپنے خرچ سے دو منزلہ عمارت تعمیر کروائے گا۔ اس تعمیر پر جتنا خرچہ ہوگا، فریقِ دوم خود کرے گا۔ اس تعمیری خرچہ میں فریقِ اول اور فریقِ سوم کا کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہوگا۔  جب تعمیر مکمل ہوجائے گی تو اس وقت سے اسے پندرہ سال کے لیے کرایہ پر دیا جائے گا اور پندرہ سال تک کرایہ تینوں فریق کے درمیان تقسیم ہوگا۔ پندرہ سال کے بعد جب عمارت خالی ہوگی تو فریقِ دوم کا عمارت کی تعمیر سے کسی قسم کا کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہوگا۔ فریقِ اول اور فریقِ سوم اس کے مالک بن جائیں گے۔ فریق دوم پھر نہ عمارت کا مالک ہوگا، نہ کرایہ میں حصہ کا حق دار ہوگا۔   

اتفاق سے معاہدہ کے بعد اور عمارت کی تعمیر سے قبل ایک کمپنی Diners کے ساتھ کرایہ داری کا معاملہ طے ہوا جس میں کرایہ ماہانہ دو لاکھ بیس ہزار روپے طے ہوا۔ اس ماہانہ کرایہ دو لاکھ بیس ہزار روپے میں فریقِ اول کے لیے نوے (90) ہزار روپے، فریقِ دوم کے لیے ستر (70) ہزار روپے، اور فریقِ سوم کے لیے (60) ساٹھ ہزار روپے مقرر کیے گئے۔ کرایہ دار سے یہ بات بھی طے ہوئی کہ کرایہ میں ہر سال 10% اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور آپس میں یہ طے ہوا کہ وہ اضافہ بھی تینوں فریق کے درمیان مذکورہ بالا تناسب سے تقسیم ہوگا۔ ان تینوں کے درمیان کرایہ کی یہ تقسیم یوں ہوئی کہ پہلے فریقِ اول اور فریقِ سوم خود مکان کی تعمیر کرنا چاہ رہے تھے اور کرایہ ایک (1) لاکھ پچاس (50) ہزار تک کی بات تھی تو فریقِ اول کے لیے نوے (90) اور فریقِ سوم کے لیے ساٹھ (60) ہزار مقرر کیے گئے۔ لیکن پھر ان کے پاس تعمیر کے لیے پیسے نہیں تھے تو فریقِ دوم نے آکر بتایا کہ تعمیر میں کرلوں گا، اور ایک (1) لاکھ پچاس (50) ہزار سے اوپر جو بھی کرایہ ملے گا وہ میرا ہوگا۔ چنانچہ Diners کے ساتھ دو (2) لاکھ بیس (20) ہزار پر بات ہوئی تو ایک (1) لاکھ پچاس (50) ہزار سے اوپر کے ستر (70) ہزار فریقِ دوم کے لیے مقرر کیے گئے۔

پرائیویٹ کمپنی کی طرف سے ایڈوانس زرِ ضمانت کی صورت میں پندرہ (15) لاکھ روپے ملے، اس کے بارے میں یہ طے ہوا کہ یہ رقم بھی پلاٹ کی تعمیر میں استعمال ہوگی۔ اور پندرہ سالہ معاہدہ مکمل ہونے پر ایڈوانس 15 لاکھ روپے واپس کرنے کی ذمہ داری فریقِ اول اور فریقِ سوم پر ہوگی، جس میں سے نو (9) لاکھ فریقِ اول واپس کرے گا اور چھ (6) لاکھ فریقِ سوم۔ فریقِ دوم اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ فریقِ اول اور فریقِ سوم، فریقِ دوم سے اس ایڈوانس رقم کا مطالبہ نہیں کریں گے۔  

اب اس پلاٹ پر تعمیر ہوچکی ہے اور چھ سال سے کرایہ پر ہے۔ تعمیر پر ایک کروڑ روپے خرچہ آیا ہے جس میں تین قسم کی رقوم استعمال ہوئی ہیں:- پچھتر (75)  لاکھ روپے فریقِ دوم کے۔ انیس (19)  لاکھ روپے فریقِ اول کے۔ جبکہ چھ (6)  لاکھ روپے فریقِ سوم کے۔  اور زمین میں 11.159 مرلہ زمین فریقِ اول کی ہے، جبکہ 4.27 مرلہ زمین فریقِ سوم کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ معاہدہ شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟   

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ بالا سوال کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ دو باتیں سمجھنا ضروری ہے:-

  1. مشترکہ چیز سے فائدہ اٹھانے یا کرایہ وغیرہ حاصل ہونے کی صورت میں ہر شریک صرف اپنے حصے کے بقدر حق دار ہوتا ہے، اور نقصان کی صورت میں اپنے حصے کے بقدر نقصان برداشت کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔  
  2. "شرکتِ ملک" یعنی مشترکہ ملکیتی چیز میں ہر شریک اپنے حصے کا مالک ہوتا ہے۔ بلا وجہ صرف وقت گزرنے سے اس کا حصہ اس کی ملکیت سے نہیں نکلتا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ تینوں فریق نے مشترکہ بلڈنگ بنا کر اسے کرایہ پر دینے اور کرایہ آپس میں تقسیم کرنے کا معاہدہ کیا تھا جو کہ فی نفسہ درست تھا۔  لیکن ایک تو کرایہ کی تقسیم زمین اور عمارت میں ہر شریک کی ملکیت کے تناسب سے نہیں کی گئی، یہ ناجائز اور شرعا غیر معتبر ہے۔ دوسرا معاہدہ میں جو یہ شرط لگائی گئی ہے کہ پندرہ سال بعد فریقِ دوم اس عمارت سے لا تعلق ہوجائے گا اور اپنے حصے کا بھی مالک نہیں رہے گا، یہ شرط بھی باطل اور ناجائز ہے، جس کا کوئی اعتبار نہیں۔

شرعی حکم یہ ہے کہ:

  1. کرایہ، زمین اور عمارت میں ہر شریک کی ملکیت کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔ لہٰذا پہلے کرایہ کی رقم زمین اور عمارت پر ان کی قیمت (ویلیو) کے حساب سے تقسیم کی جائے گی۔ زمین کے حصے میں جتنا کرایہ آئے گا وہ فریقِ اول اور فریقِ سوم میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ پھر عمارت کے مقابلے میں آنے والا کرایہ تینوں فریقوں کے درمیان اپنے اپنے حصۂ عمارت کے مطابق تقسیم ہوگا۔

اب تک پانچ چھ سال ملکیتی تناسب سے ہٹ کر کرایہ کی جو تقسیم ہوئی ہے، اس میں حساب کتاب کر کے دیکھ لیا جائے، جس فریق کو اس کے حصے سے زیادہ کرایہ دیا گیا ہے اس سے وہ واپس لیا جائے، اور جس فریق کو اس کے حصے سے کم کرایہ دیا گیا ہے اس کی کمی پوری کی جائے۔ تاہم اگر تینوں فریق باہمی رضامندی سے صلح کر کے گذشتہ سالوں کی کمی بیشی ایک دوسرے کو معاف کردیں اور آئندہ کے لیے مندرجہ بالا شرعی اصول کے مطابق کرایہ کی تقسیم کریں تو یہ بھی درست ہے۔

  1. عمارت میں یہ تینوں فریق (بشمول فریقِ دوم) صرف اپنے اپنے حصے کے مالک ہیں۔ پندرہ سالہ معاہدہ مکمل ہونے کے بعد بھی ہر فریق بدستور عمارت میں اپنے اپنے حصے کا مالک رہے گا۔  پندرہ سال گزرنے پر کسی بھی فریق کی ملکیت خود بخود ختم نہیں ہوگی۔ البتہ اگر کوئی فریق اپنا حصہ کسی شرعی عقد یعنی خرید و فروخت یا ہبہ (گفٹ) کے ذریعے کسی کو دیدے تو پھر اس کی ملکیت ختم ہوجائے گی۔
حوالہ جات
القرآن الکریم، [النساء: 29]:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ}.
سنن الترمذي (3/ 634):
حدثنا الحسن بن علي الخلال حدثنا أبو عامر العقدي حدثنا كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني عن أبيه عن جده: أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما، والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما.  
المجلة (ص: 206):
 مادة1073: الأموال المشتركة شركة الملك تقسم حاصلاتها بين أصحابها على قدر حصصهم، فإذا شرط أحد الشريكين في الحيوان المشترك شيئا زائدا على حصته من لبن ذلك الحيوان أو نتاجه فلا يصح.
شرح المجلة للعلامة خالد الأتاسی (4/14):
شرح المادة1073: حتی إن آخذ تلك الزیادة المشروطة یضمنها لشریکه الآخر، ففی تنقیح الحامدیة ما نصه:
سئل: فيما إذا كان لكل من زيد وعمرو عقار جار في ملكه بمفرده فتوافقا على أن ما يحصل من ريع العقارین بينهما نصفين واستمرا على ذلك تسع سنوات والحال أن ريع عقار زيد أكثر ويريد زيد مطالبة عمرو بالقدر الزائد الذي دفعه لعمرو بناء على أنه واجب عليه بسبب الشركة المزبورة فهل يسوغ لزيد ذلك ؟  
 الجواب: الشركة المزبورة غير معتبرة فحيث كان ريع عقار زيد أكثر تبين أن ما دفعه لعمرو من ذلك بناء على ظن أنه واجب عليه، ومن دفع شيئا ليس بواجب عليه فله استرداده، إلا إذا دفعه على وجه الهبة واستهلكه القابض كما في شرح النظم الوهباني وغيره من المعتبرات .
أیضا تنقیح الحامدیة، ط:مکتبة حبیبة کوئتة (1/91)

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

17/محرم الحرام /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب