021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ماکول اللحم میتہ کےبالوں وغیرہ سے متعلق احادیث کی تحقیق اور روغنِ پشم کا حکم
73993ذبح اور ذبیحہ کے احکام ذبائح کے متفرق مسائل

سوال

کھانے پینے کی وہ  اشیاء جو روغنِ پشم یعنی لینولن (Lanolin)  مادے پر مشتمل ہوتی ہیں انہیں کھانے کاکیا حکم ہے ؟کیا روغن پشم یعنی لینولن (lanolin ) مادہ حلال ہے یا حرام؟ میں نے ایک مشروب پیا تھا، جس میں یہ مادہ شامل تھا، روغن پشم  یعنی لینولن (lanolin)  زردی مائل  چکنائی والا مادہ ہوتا ہے، جو کہ بھیڑ کی اون سے نکالا جاتا ہے، اسی مناسبت سے اسے روغنِ پشم  کہتے ہیں۔یہ مادہ حلال مذبوحہ بھیڑوں کی اُون سے بھی حاصل ہوسکتاہے ،زندہ بھیڑ کی اُون سے بھی اور ایسی بھیڑوں سے بھی جنہیں حلال طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو۔تو سوال یہ ہے کہ ان تنیوں صورتوں میں بھیڑ کی اُون سے حاصل شدہ لینولن پاک اورحلال تصورہوگی ؟ اور جن مصنوعات میں اس مادے کا استعمال ہوا ہوتو ان کا داخلی یا خارجی استعمال جائز ہوگا؟

نیز امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک حدیث ذکر کی ہے، جس میں یہ مذکور ہے کہ مردار کی کھال، سینگ، بال، اُون، دانت اور ہڈیاں حلال ہیں، اس حدیث کی اسنادی حیثیت واضح فرما دیجیے، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہی حکم ذکرکرنے  سے پہلے سوال میں ذکر کی گئی روایت کی محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک  اسنادی حیثیت ذکر کی جائے گا، اس کے بعد فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات کی روشنی میں مردار بھیڑ کی اُون سے تیار کیے گئے روغنِ پشم کا حکم ذکر کیا جائے گا۔سوال میں  ذكر كی گئى  روایت مرفوع ہے اور یہ امام زہری رحمہ اللہ سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ہی سند سے مروی ہے، پھر امام زہری رحمہ اللہ سے یہ روایت چار مختلف طرق سے منقول  ہے، جن میں الفاظ کا اختلاف بھی پایاجاتا ہے، ان طرق کی تفصیل درج ذیل ہے:

 پہلا طریق:

 سوال میں ذکر کیے گئے طریق کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں درج ذیل  سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:

 

سنن الدارقطني (1/ 48، رقم الحديث: 23) مؤسسة الرسالة، بيروت:

 نا محمد بن نوح الجنديسابوري نا علي بن حرب نا سليمان بن أبي هوذة نا زافر بن سليمان عن أبي بكر الهذلي أن الزهري حدثهم عن عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس قال سمعت

رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما علي طاعم يطعمه : ألا كل شيء من الميتة حلال إلا ما أكل منها فأما الجلد والقرن والشعر والصوف والسن والعظم فكل هذا حلال لأنه لا يذكى. أبو بكر الهذلي متروك۔

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت " قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما علي طاعم يطعمه " تلاوت فرمائی اور فرمایا: خبردار مردار کے تمام اجزاء حلال ہیں، مگر وہ جس چیز کو کھایا جاتا ہو، لیکن چمڑا، سینگ، بال، اُون، دانت اور ہڈیاں سب حلال ہیں، کیونکہ ان پر ذبح کا عمل نہیں کیا جاتا۔

مذکورہ روایت کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔[1] مذکورہ روایت کی سند میں ابوبکر ہذلی نامی راوی کو  امام دارقطنی رحمہ اللہ نے "متروک الحدیث " قرار دیا ہے، اس راوی کے بارے میں دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ کی آراء مختلف ہیں،  اکثر ائمہ کرام رحمہم اللہ نے اس راوی پر شدید جرح کی ہے، چنانچہ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے"لیس بشیئ" امام یحی بن معین رحمہ اللہ نے " لیس بثقة" اور "لیس بشیئ "، امام غندر رحمہ اللہ نے"یکذب لیس بثقة" امام نسائی رحمہ اللہ نے " لیس بثقة ولا يكتب حديثه " اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "متروک الحدیث" کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور یہ تمام الفاظ جرح ِشدید کے الفاظ ہیں، الفاظِ جرح کے مراتب میں ان میں سے بعض تیسرے درجے اور بعض چوتھے درجے کی جرح کے ہیں اور  بہرصورت ایسی جرح والے راوی کی روایت احکام اور فضائل دونوں میں قبول نہیں ہوتی۔

البتہ بعض دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ نے اس پر خفیف جرح کے الفاظ نقل کیے ہیں، چنانچہ امام احمد بن حنبل اور امام ابو زرعہ رازی رحمہما اللہ نے اس کو "ضعيف"، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے "لین الحدیث، یکتب حدیثہ"، امام بخاری رحمہ اللہ نے "لیس بحافظ عندھم" اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے "لین الحدیث" کے الفاظ نقل کیے ہیں اور یہ تمام  الفاظ پانچویں اور چھٹے درجے کی جرح سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے رواة کی روایت احکام میں توابع اور شواہد کے طور پر اور فضائل میں مطلقا قابلِ عمل ہوتی ہے۔

جہاں تک اس راوی کی عدالت کا تعلق ہے تو امام  ابنِ حبان رحمہ اللہ نے اس کو اپنی کتاب"الثقات" میں ذکر کیا ہے، جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ توثیق کے معاملے میں متساہل شمار ہوتے ہیں، چنانچہ شیخ محمدعوامہ صاحب دامت برکاتہم نے دراسات الکاشف میں ان کے منہج کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ اپنی کتاب "الثقات" میں امرِ سلبی کا اعتبار کرتے ہیں، یعنی وہ  ہر ایسے راوی کو ذکرکرتے ہیں، جس کے بارے میں ان کے علم کے مطابق جرح منقول نہ ہو اور امام ابن حبان رحمہ اللہ کی"الثقات" کے مقدمہ میں ذکر کی گئی عبارت سے بھی یہی منہج  معلوم ہوتاہے:

مقدمة الثقات لابن حبان (1/ 13) دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند:

العدل من لم يعرف منه الجرح ضد التعديل فمن لم يعلم بجرح فهو عدل إذا لم يبين ضده إذ لم يكلف الناس من الناس معرفة ما غاب عنهم۔

نیزشیخ محمد عوامہ صاحب حفظہ اللہ نے مصنف ابن ابی شیبہ کے مقدمہ میں  حافظ عراقی رحمہ اللہ کے حوالے سے اس بات کی  بھی تصریح فرمائی ہے کہ اگر کسی راوی پر جرح مفسر کی گئی ہو تو ایسے راوی کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق معتبر نہیں۔[2]

لہذا امام ابن حبان رحمہ اللہ کا کسی راوی کو اپنی کتاب"الثقات" میں ذکر کرنا اس وقت معتبر مانا جا سکتا ہے جب اس راوی پر کسی اور امام نے جرح مفسّر نہ کی ہو، لیکن اگر اس راوی پر  دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے جرح  مفسرمنقول ہو تو ایسی صورت میں امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کی توثیق کافی نہیں۔ اور مذکورہ راوی پر امام غندر رحمہ اللہ نے "یکذب لیس بثقة"  کے الفاظ کے ذریعہ جرح مفسر کی ہے، لہذا محدثینِ کرام کے اصولوں کے مطابق یہ راوی ضعیف شمار ہو گا اور اس کی روایت سند کے اعتبار سے ضعیف کہلائے گی، البتہ  چونکہ بعض ائمہ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک اس میں ضعفِ خفیف ہے، اس لیے  ان  حضرات کے نزدیک اس روایت کو  احکام میں توابع اور شواہد کے طور پر معتبر مانا جا سکتا ہے۔

تاريخ بغداد وذيوله (9/ 222، رقم الترجمة: 4800 ) دارالكتب العلمية، بيروت:

سُلمى بن عبد الله بن سُلمى، أبو بكر الهذلي البصري :

كان في صحابة أبي جعفر المنصور. وحدث عن محمد بن سيرين، والحسن البصري، وعكرمة مولى ابن عباس، وعامر الشعبي، وابن شهاب الزهري، وغيرهم.۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أخبرنا البرقانيّ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْن بْن عَلِيّ التميمي، حَدَّثَنَا أَبُو عوانة يعقوب بن إسحاق، حَدَّثَنَا

أَبُو بَكْرٍ المروذي قَالَ: وقَالَ أَبُو عبد اللَّه- يعني أَحْمَد بْن حنبل- في أبي بكر الهذلي، ضعف أمره.۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حَدَّثَنَا يحيى بن معين- وسئل عن أبي بكر الهذلي- فقال: كان غندر يقول كان إمامنا، وكان يكذب. ليس بثقة.

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (33/ 159، رقم الترجمة: 7268) مؤسسة الرسالة –بيروت:

ق: أبو بكر الهذلي البصري، اسمه سلمى بن عبد الله بن سلمى، وقيل: اسمه روح، وهو ابن بنت حميد بن عبد الرحمن الحميري.۔۔۔۔۔۔۔۔ وقال عمرو بن علي: سمعت يحيى بن سعيد وذكر أبا بكر الهذلي فلم يرضه ولم أسمعه ولا عبد الرحمن يحدثان عنه بشيء قط قال: وسمعت يزيد بن زريع يقول: عدلت عن أبي بكر الهذلي عمدا. وقال عباس الدوري، عن يحيى بن معين: ليس بشيء. وقال في موضع آخر: ليس بثقة. وقال أبو بكر بن أبي. خيثمة،عن يحيى بن معين: ليس بشيء. وقال أيضا عن يحيى : كان غندر يقول: كان أبو بكر الهذلي إمامنا وكان يكذب. وقال أبو زرعة: ضعيف. وقال أبو حاتم: لين الحديث، يكتب حديثه ولا يحتج به. وقال النسائي: ليس بثقة ولا يكتب حديثه.

ميزان الاعتدال (4/ 497، رقم الترجمة: 10005) دار المعرفة للطباعة ، بيروت:

أبو بكر الهذلى سلمى بن عبد الله بن سلمى البصري، أخباري علامة، لين الحديث. عن الحسن، وعكرمة، وجماعة. وعنه ابن المبارك، ومسلم بن ابراهيم، وجماعة. ضعفه أحمد، وغيره. وقال غندر، وابن معين: لم يكن بثقة. وقال يزيد بن زريع: عدلت عنه عمدا. وقال أبو حاتم: لين يكتب حديثه. وقال النسائي: ليس بثقة. وقال البخاري: ليس بالحافظ عندهم.

تقريب التهذيب (ص: 625، رقم الترجمة: 8002) دار الرشيد – سوريا:

أبو بكر الهذلي قيل اسمه سلمى بضم المهملة ابن عبد الله وقيل روح أخباري متروك الحديث من السادسة مات سنة سبع وستين ق۔

عمدة القاري (ج 18 / ص 197) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

قال القرطبي اختلف في جواز بيع كل محرم نجس فيه منفعة كالزبل والعذرة فمنع من ذلك الشافعي ومالك وأجازه الكوفيون والطبري وذهب آخرون إلى إجازة ذلك من المشتري دون البائع ورأوا أن المشتري أعذر من البائع لأنه مضطر إلى ذلك روي ذلك عن بعض الشافعية واستدل بالحديث أيضا من ذهب إلى نجاسة سائر أجزاء الميتة من اللحم والشعر والظفر والجلد والسن وهو قول الشافعي وأحمد وذهب أبو حنيفة ومالك إلى أن ما لا تحله الحياة لا ينجس بالموت كالشعر والظفر والقرن والحافر والعظم لأن النبي كان له مشط من عاج وهو عظم الفيل وهو غير مأكول فدل على طهارة عظمه وما أشبهه وأجيب بأن المراد بالعاج عظم السمك وهو الذيل قلت قال الجوهري العاج من عظم الفيل وكذا قاله في ( العباب ) وفي    ( المحكم ) العاج أنياب الفيل ولا يسمى غير الناب عاجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وروى الدارقطني من حديث ابن عباس قال إنما حرم رسول الله من الميتة لحمها فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به وروى أيضا من حديث أم سلمة رضي الله تعالى عنها زوج النبي تقول سمعت رسول الله يقول لا بأس بمسك الميتة إذا دبغ ولا بأس بصوفها وشعرها وقرونها إذا غسل بالماء فإن قلت الحديثان كلاهما ضعيفان لأن في إسناد الأول عبد الجبار بن مسلم قال الدارقطني هو ضعيف وفي إسناد الثاني يوسف بن أبي السفر قال الدارقطني هو متروك الحديث قلت ابن حبان ذكر عبد الجبار في الثقات وأما يوسف فإنه لا يؤثر فيه الضعف إلا بعد بيان جهته والجرح المبهم غير مقبول عند الحذاق من الأصوليين وهو كان كاتب الأوزاعي۔

دوسرا طریق:

اس روایت کے  دوسرےطریق کو بھی امام ِدارقطنی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:

سنن الدارقطني (1/ 69، رقم الحديث: 118) مؤسسة الرسالة، بيروت:

 حدثنا محمد بن علي بن إسماعيل الأيلي ، نا أحمد بن إبراهيم البسري ، نا محمد بن آدم ،نا الوليد بن مسلم ،عن أخيه عبد الجبار بن مسلم ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله  بن

عتبة، عن ابن عباس , قال: «إنما حرّم رسول الله صلى الله عليه وسلم من الميتة لحمها وأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به» عبد الجبار ضعيف۔

اس روایت کو علامہ بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں، امام ابوالقاسم تمام بن محمد دمشقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الفوائد" میں اور امام ابوسعيدابن العرابی رحمہ اللہ نے اپنی معجم میں بھی نقل کیا ہے،[3] اس روایت کی سند میں عبدالجبار بن مسلم نامی راوی کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، چنانچہ  امام دارقطنی اور علامہ بیہقی رحمہما اللہ نے اس کو "ضعیف" کہا،  ان كے بعد علامہ ابنِ عساكر اور علامہ ابنِ جوزی رحمہ اللہ نے بھی امام دارقطنی رحمہ اللہ کے حوالے سے صرف لفظ "ضعیف" نقل کیا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ضعیف کے ساتھ "لا ٲعرفہ" بھی کہا،(اگرچہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے قول "لا ٲعرفہ" کو عجیب کہا ہے، مگر اس راوی کے ضعف سے ان کو بھی اتفاق ہے) ان کے علاوہ اور بھی بعض  حضرات نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے حوالے سے اس راوی کو ضعیف نقل کیا ہے۔

 البتہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس  کو اپنی کتاب "الثقات" میں ذکرکیا ہے، اسی طرح امام ابن قطلوبغا رحمہ للہ نے بھی اس کو اپنی کتاب "الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة" میں نقل کیا ہے،  البتہ ابنِ قلوبغا رحمہ اللہ کا اپنی کتاب میں ذکر کرنا ان کے ہاں ثقہ ہونے کی  دلیل  نہیں، کیونکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابن حبان رحمہ اللہ کی "الثقات"  اور امام  عبدالرحمٰن بن ابی حاتم رحمہ اللہ کی"الجرح والتعدیل"   میں مذكور  رواة  میں سے صرف ان کو ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے جن کے بارے میں توثیق و تعدیل کا  کوئی قول منقول ہو، اگرچہ امام ابنِ قطلوبغا رحمہ اللہ کے نزدیک وہ راوی ضعیف ہی ہو۔اسی لیےاگرکسی راوی كے بارے ميں جرح  بھی منقول ہو اور وہ راوی ان کے ہاں ضعیف ہو  تو امام ابن قطلوبغا نے اس کو بھی ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے، چنانچہ ابن قطلوبغا رحمہ اللہ حماد بن ولید بغدادی کے ترجمہ میں جرح کے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

 قال محمد بن طاهر: كذاب ،قلت: لولا أني أذكر من فيه أدنى تعديل ما ذكرت من أتى بكذب۔[4]

ترجمہ: محمد بن طاہر نے فرمایا: یہ کذاب ہے۔ ميں كہتا ہوں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں اس کتاب میں ہر اس راوی کو ذکرکروں گا جس کے بارے میں  معمولی سی تعدیل بھی منقول ہو تو میں جھوٹے رواة کا  تذکرہ  نہ کرتا۔

البتہ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے عبدالجبار بن مسلم نامی راوی کے ضعف کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اس کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق کا اعتبار کرتے ہوئے اس روایت پر حسن کا حکم لگایا ہے، اسی طرح مشہور حنفی فقیہ اور محدث علامہ عینی اور علامہ ابن نجيم کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 97) دار الفكر، بيروت:

وأخرج الدارقطني عن عبيد الله بن عبد الله بن عباس «إنما حرم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من الميتة لحمها، فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به» وأعله بتضعيف عبد الجبار بن مسلم وهو ممنوع، فقد ذكره ابن حبان في الثقات فلا ينزل الحديث عن الحسن۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (12/ 56) دار إحياء التراث العربي، بيروت:

. فإن قلت: الحديثان كلاهما ضعيفان لأن في إسناد الأول: عبد الجبار بن مسلم، قال الدارقطني: هو ضعيف، وفي إسناد الثاني: يوسف بن أبي السفر، قال الدارقطني: هو متروك الحديث. قلت: ابن حبان ذكر عبد الجبار في الثقات، وأما يوسف فإنه لا يؤثر فيه الضعف إلا بعد بيان جهته، والجرح المبهم غير مقبول عند الحذاق من الأصوليين، وهو كان كاتب الأوزاعي۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 114):

ولنا في المعهود فيها حالة الحياة الطهارة، وإنما يؤثر الموت النجاسة فيما يحله ولا تحلها الحياة فلا يحلها الموت، وإذا لم يحلها وجب الحكم ببقاء الوصف الشرعي المعهود لعدم المزيل وفي السنة أيضا ما يدل عليه، وهو قوله - عليه السلام - في شاة مولاة ميمونة حين مر بها ميتة «إنما حرم أكلها» في الصحيحين وفي لفظ «إنما حرم عليكم لحمها ورخص لكم في مسكها» وفي الباب حديث الدارقطني «إنما حرم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من الميتة لحمها فأما الجلد والشعر والصوف، فلا بأس» ، وهو وإن أعله بتضعيف عبد الجبار بن مسلم فقد ذكره ابن حبان في الثقات فهو لا ينزل عن درجة الحسن وأخرجه الدارقطني من طريق أخرى وضعفهما ومن طريق أخرى بمعناه ضعيفة.

لہذا  عبدالجبار بن مسلم جمہور محدثین اور ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ کے نزدیک ضعیف راوی ہے اور ان کے نزدیک یہ روایت صرف  متابعت کا فائدہ دے سکتی ہے،لیکن بعض کبار فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ نے چونکہ امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کی توثیق کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر حسن کا حکم لگایا ہے، اس لیے حنفیہ کے ان فقہائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ روایت  مقبول اور قابلِ استدلال ہے۔البتہ یہ بات یاد رہے کہ حنفیہ میں سے کسی نے اس روایت سے بال اور اُون وغیرہ کے داخلی استعمال پر استدلال نہیں کیا، جس کی ایک  وجہ یہ بھی ہے کہ اس روایت میں بال اور اُون کے ساتھ چمڑے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جبکہ چمڑے کا داخلی استعمال عام حالات میں بالاتفاق حرام ہے۔

السنن الكبرى للبيهقي (1/ 37 ، رقم الحديث: 81 ،82) دار الكتب العلمية، بيروت:

أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد بن أحمد الفقيه، أنا علي بن عمر الحافظ، ثنا محمد بن مخلد، ثنا العباس بن محمد بن حاتم، ثنا شبابة، ثنا أبو بكر الهذلي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس " إنما حرم من الميتة ما يؤكل منها وهو اللحم فأما الجلد والسن والعظم والشعر والصوف فهو حلال ". قال علي: أبو بكر الهذلي ضعيف. أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، نا أبو العباس محمد بن يعقوب، نا العباس بن محمد، قال: قال يحيى بن معين: هذا الحديث ليس

يرويه إلا أبو بكر الهذلي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس أنه كره من الميتة لحمها فأما السن والشعر والقد فلا بأس به. قال يحيى: أبو بكر الهذلي ليس بشيء. وقال الشيخ رحمه الله تعالى: وقد رواه عبد الجبار بن مسلم، عن الزهري، بإسناده: " إنما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم من الميتة لحمها، فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به". أنبأ أبو عبد الرحمن السلمي، أنا علي بن عمر الحافظ، ثنا محمد بن علي الأيلي، ثنا أحمد بن إبراهيم البسري، ثنا محمد بن آدم، ثنا الوليد بن مسلم، عن أخيه عبد الجبار بن مسلم فذكره بإسناده، قال علي بن عمر رحمه الله تعالى: عبد الجبار ضعيف۔

سنن الدارقطني (1/ 69،118 ) مؤسسة الرسالة، بيروت:

حدثنا محمد بن علي بن إسماعيل الأيلي , نا أحمد بن إبراهيم البسري، نا محمد بن آدم , نا الوليد بن مسلم ، عن أخيه عبد الجبار بن مسلم، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس ، قال: «إنما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم من الميتة لحمها وأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به» عبد الجبار ضعيف۔

الثقات لابن حبان (7/ 136،رقم الحديث: 9346) دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند:

عبد الجبار بن مسلم الدمشقي أخو الوليد بن مسلم يروي عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن بن عباس قال إنما حرم من الميتة لحمها رواه محمد بن عبد الرحمن بن سهم عن الوليد بن مسلم عن أخيه عبد الجبار بن مسلم عن الزهرى۔

ميزان الاعتدال (2/ 534، رقم الحدیث: 4745) دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت:

عبد الجبار بن مسلم. عن الزهري. ضعيف ، ولا أعرفه. قال الدارقطني: ضعيف.

لسان الميزان (3/ 389،رقم الترجمة: 1547) مؤسسة للمطبوعات بيروت:

"عبد الجبار" بن مسلم عن الزهري ضعيف ولا أعرفه قال الدارقطني ضعيف انتهى وذكره ابن حبان في الثقات فقال هو أخو الوليد بن مسلم يروي عن الزهري عن عبيد الله عن ابن عباس رضي الله عنهما قال إنما حرم من الميتة لحمها رواه محمد بن عبد الرحمن بن سهم عن الوليد بن مسلم عن أخيه وعجيب من قول المؤلف لا أعرفه وله ترجمة في تاريخ بن عساكر وساق حديثه المذكور من طرق وفي بعضها قال تمام لم يسند عبد الجبار بن مسلم إلا هذا الحديث قلت ولم يرو عنه غير الوليد وقال يعقوب ابن سفيان في تاريخه سألت هشام بن عمار عنه فقال كان يركب الخيل ويتنزه ويتصيد وهذا الوصف من رواية أخيه عنه يرفع جهالة عينه ۔

الضعفاء والمتروكون (2/ 83، رقم الترجمة: 1815 ) دار الكتب العلمية – بيروت:

عبد الجبار بن مسلم يروي عن الزهري قال الدارقطني: ضعيف۔

الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة (6/ 185،رقم الترجمة: 6360 ) أبو الفداء زين الدين قاسم بن قُطْلُوْبَغَا (المتوفى: 879هـ)مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية:

عبد الجبار  بن مُسْلِم الدمشقي، أخو الوليد بن مسلم. يروي عن الزهري. روى عنه أخوه الوليد بن مسلم. وقال الدارقطني: ضعيف. وقال يعقوب بن سفيان: سألت هشام بن عمار عنه فقال: كان يركب الخيل، ويتنزه، ويصيد. وقال تمام: لم يسند غير حديث ابن عباس: «إنما حُرِّمَ من الميتة لحمها».

الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة (1/ 256) مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية:

قلت: فعن هذا تَصَدَّيْتُ لكتابه، وعن هذا قيل: إنه (ابن حبان)قد يذكر المجهول إذا روى عنه ثقة ولم يُجرح، ولم يكن الحديث منكراً، وقيل: إن مَنْ كان بهذه الصفة فهو حجة عند النسائي أيضاً، وإن من ارتفع عنه اسم الجهالة برواية اثنين عنه ولم يُعرف فيه مقالٌ يكون حديثه حسناً.

نوٹ:پیچھے ذكر كيے گئے دونوں طرق ميں گوشت کی حرمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بالوں اور اُون وغیرہ کا استناء بھی کیا گیا ہے، جبکہ اسی روایت کے تیسرے اور چوتھے طریق میں اس اضافے کا ذکر نہیں ہے اور وہ طرق سند کے اعتبار سے صحیح ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

تیسرا طریق:

اس روايت كے  تیسرے طریق کو امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:

  صحيح البخاري (2/ 128) دار طوق النجاة:

حدثنا سعيد بن عفير، حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، حدثني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:"وجد النبي صلى الله عليه وسلم شاة ميتة، أعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «هلا انتفعتم بجلدها؟» قالوا: إنها ميتة: قال: «إنما حرم أكلها»

اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ امام مسلم،امام ابوداود، امام مالک، امام ابن حبان، امام احمد بن حنبل، امام ابن ماجہ، امام ابو یعلیٰ  اور دیگر بہت سے محدثین کرام رحمہم اللہ نے بھی ذکر کیا ہےاور یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے ۔اس روایت میں بال، اُون اور ہڈی وغیرہ کا ذکر نہیں ہے، نیز اس کے ظاہری الفاظ"حرم أكلها"اپنے اطلاق کے اعتبار سے  مردار کے تمام اجزاء کی حرمت پر دلالت کر رہے ہیں، مگر شراحِ حدیث نے اس روایت کی تشریح میں صرف اُن اجزاء کی حرمت کو ذکر کیا ہے جوعام طور پر کھانے کےلیے استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے گوشت، چربی اور دیگر اجزاء وغیرہ۔ لیکن وہ اجزاء جو کھانے کے طور پر استعمال نہیں ہوتے، جیسے بال، اُون اور ہڈیاں وغیرہ  کو حدیث کے اطلاق کے تحت ذکر نہیں کیا، بلکہ ان اجزاء کے بارے میں یہ ذکر کیا کہ ان سے نفع اٹھانا جائز ہے اور اس کی تشریح میں خارجی استعمال سے متعلق مثالیں ذکر کی ہیں، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھی کے دانت کو بطور کنگھی استعمال کرنا وغیرہ۔[5]

شرح لشرف الدين الطيبي على مشكاة المصابيح المسمى بـ الكاشف عن حقائق السنن (المتوفی:743هـ) (3/ 838) مكتبة نزار مصطفى الباز:

الحديث التاسع عن عبد الله بن عباس: قوله: ((إنما حرم أكلها)) ((مح)): رويناه علي وجهين: حرم- بفتح الحاء وضم الراء- وحرم- بضم الحاء وكسر الراء المشددة- ((حس)): فيه دليل لمن ذهب إلي أن ما عدا المأكول من أجزاء الميتة غير محرم الانتفاع، كالشعر، والسن، والقرن ونحوها، وقالوا: لا حياة فيها، فلا ينجس بموت الحيوان۔

التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (9/ 52) أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر القرطبي (المتوفى: 463هـ) وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية:

 وأما قوله عليه الصلاة والسلام لا تنتفعوا من الميتة بإهاب فإن معناه حتى يدبغ بدليل أحاديث الدباغ وقد أوضحنا هذا في باب زيد ابن أسلم والحمد لله ومن أجاز عظم الميتة كالعاج وشبهه في الأمشاط وغيرها زعم أن الميتة ما جرى فيه الدم وليس كذلك العظم واحتجوا بقوله في هذا الحديث إنما حرم أكلها وليس العظم مما يؤكل قالوا فكل ما لا يؤكل من الميتة جائز الانتفاع به لقوله إنما حرم أكلها۔

حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 379) محمد بن عبد الهادي التتوي، أبو الحسن، نور الدين السندي (المتوفى: 1138هـ) الناشر: دار الجيل - بيروت، بدون طبعة:

قوله: (إنما حرم أكلها) روي بفتح الحاء والراء المخففة وبضم الحاء وكسر الراء المشددة وظاهره أن ما عدا المأكول من أجزاء الميتة غير محرم كالشعر والسن والقرن ونحوها قالوا لا حياة فيها فلا تنجس بموت الحيوان.

صحيح مسلم (1/ 276) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

حدثني أبو الطاهر، وحرملة، قالا: حدثنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة عن ابن عباس، قال: تصدق على مولاة لميمونة بشاة فماتت فمر

بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «هلا أخذتم إهابها فدبغتموه فانتفعتم به؟» فقالوا: إنها ميتة فقال: «إنما حرم أكلها»[6]

چوتھا طريق:

اس روایت کے چوتھےطریق  کو امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں  درج ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

مسند أحمد (5/ 415، رقم الحدیث: 3452) مؤسسة الرسالة، بيروت:

حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاة لميمونة ميتة، فقال: "ألا استمتعتم بإهابها؟" قالوا: وكيف وهي ميتة؟ فقال: "إنما حرم لحمها" قال معمر: وكان الزهري ينكر الدباغ ويقول: "يستمتع بها على كل حال" قال شعيب الأرنؤوط: إسناده صحيح على شرط الشيخين۔

اس روایت کو مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے علاوہ معجم کبیر، مصنف عبدالرزاق، سنن دارقطنی، شرح مشکل الآثار اور مستخرج ابی عوانہ میں بھی ذکر کیا گیا ہے، یہ روایت بھی سند کے اعتبار سے صحیح ہے، کیونکہ امام معمر اور امام عبدالرزاق رحمہما اللہ کے سوا اس کے بقیہ رواة پہلے طریق والے ہی ہیں اور یہ دونوں حضرات بھی ثقاہت کے اعلی درجے پر فائز ہیں، لہذااس طریق کے بھی تمام رواة ثقہ ہیں، اس طریق میں بھی بال،اُون اور ہڈی وغیرہ کا ذکر نہیں ہے، البتہ اس روایت میں مردار کے صرف گوشت کے حرام ہونے کی تصریح کی گئی ہے، جس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ مردار کا  صرف گوشت کھانا حرام ہےاور دیگر اعضاء جیسے اُون اور بال وغیرہ کے کھانے  سے متعلق یہ روایت خاموش ہے، لیکن اگر نصوص میں مفہومِ مخالف كومعتبر مانا جائے تو اس طریق کا مفہوم مخالف گوشت کے علاوہ دیگر اعضاء کی حلت کا تقاضا کرتا ہے، خصوصاً جبکہ اس روایت کے شروع میں كلمہٴ حصر"إنما" بھی لایا گیا ہے، جس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حرمت صرف گوشت  كے ساتھ خاص ہے۔

المعجم الكبير للطبراني (23/ 428) دار النشر: مكتبة ابن تيمية،  القاهرة:

حدثنا إسحاق بن إبراهيم عن عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على شاة لمولاة لميمونة ميتة فقال: «ألا استمتعتم بإهابها» ، قالوا: وكيف وهي ميتة يا رسول الله؟ قال: «إنما حرم لحمها»

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (1/ 62) المكتب الإسلامي – بيروت:

أخبرنا أبو سعيد أحمد بن محمد بن زياد بن بشر الأعرابي قال: حدثنا إسحاق بن إبراهيم الدبري قال: قرأنا على عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على شاة لمولاة لميمونة فقال: «أفلا استمتعتم بإهابها؟» قالوا: فكيف، وهي ميتة يا رسول الله؟ قال: «إنما حرم لحمها»

تيسرے اور چوتھے طريق میں سے راجح طريق:

 پیچھے ذکرکردہ دونوں طرق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں اور ان کے بعد امام زہری رحمہ اللہ تک ایک ہی سند سے منقول ہیں، پھر امام زہری رحمہ اللہ کے تلامذہ میں سے امام مالک، امام سفیان بن عیینہ اور امام اوزاعی رحمہم اللہ نے" حُرّم أکلہا" کے الفاظ نقل کیے ہیں، جبکہ امام معمر بن راشد رحمہ اللہ نے "حُرّم لحمہا" کے الفاظ نقل کیے ہیں، نيز امام اوزاعی رحمہ اللہ کے سوا ان سب حضرات  کا اصحاب ِزہری کے طبقات میں پہلے طبقہ سےتعلق ہے۔ اور محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے ہاں کسی بھی امام کے اصحاب میں طبقہ اُولی کی روایت دیگر کی بنسبت راجح شمار ہوتی ہے، البتہ علامہ حازمی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق امام اوزاعی رحمہ اللہ کا دوسرے طبقہ سےتعلق ہے۔الغرض اصول حدیث کے اعتبار سے یہ دونوں راویتیں اعلی درجے کی صحت پر ہیں، مگر ان میں سے  پہلی روایت زیادہ صحیح اور راجح معلوم ہوتی ہے، جس کی دو وجہیں ہیں:

پہلی وجہ: اس کو امامِ زہری رحمہ اللہ سے نقل کرنے والے رواۃ فقیہ ہیں ، جیسے امام مالک اور امام اوزاعی رحمہما اللہ وغیرہ اور راوی کا فقیہ ہونا وجوہِ ترجیح میں سے ہے۔

 دوسری وجہ:  اس روایت  کو حضرت امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی صحیحین میں  اور امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی  موطا میں نقل کیا ہے، جبکہ دوسری روایت کو ان میں سے کسی نے نہیں لیا۔اور ان تینوں حضرات کا حدیث لینے کا منہج دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ کے  مقابلےمیں کافی سخت ہے، اسی لیے مجموعی طور پر ان تینوں کتابوں کی صحت پر جمہور محدثین  کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے اورعلامہ نووی، حافظِ ابن حجر اور علامہ سیوطی رحمہم اللہ نے متفق علیہ حدیث کو "اصح الاحادیث" قرار دیا ہے،(اگرچہ اس پر ائمہ فن نے کلام کیا ہے، کیونکہ حدیث کے اصح ہونے کا مدار سند کے رواة پر ہوتا ہے، نہ کہ کسی کتاب میں مذکور ہونے پر، لہذا ممکن ہے کوئی حدیث ایسی ہو جو بخاری اور مسلم میں نہ ہو، مگر سند کے اعتبار سے وہ زیادہ صحیح ہو، مگر بہت سے حضرات نے اس قول کو تسلیم کیا ہے کہ ان کتابوں میں مذکور روایت کی تصحیح ان کی اسناد کے تتبع و استقراء کے بعد ہی کی گئی ہے) لہذا اس سے بھی معلوم  ہوتا ہے کہ اصولِ حدیث  کی روشنی میں پہلی حدیث راجح ہے۔

واضح رہے کہ یہ ترجیح صرف اسنادی حیثیت کے اعتبار سے ہے، جہاں تک اس روایت کے معنی کا تعلق ہے تو معنوی اعتبار سے دونوں روایتوں میں کوئی فرق نہیں، دونوں کا معنی یہ ہے کہ مردار کے استعمال کی حرمت صرف ان اجزاء سے متعلق ہے، جن کو عام طور پر کھانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ان کے علاوہ دیگر اجزاء جیسے بال اور اُون وغیرہ سے نفع اٹھانا حرام نہیں۔باقی محدثین کرام کی تشریح کی روشنی میں داخلی استعمال کے اعتبار سے دونوں روایتیں خاموش ہیں۔

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (8/ 257) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

نا عبد الرحمن أنا أبو بكر ابن أبي خيثمه فيما كتب إلي قال سمعت يحيى بن معين يقول: معمر ويونس عالمان بالزهرى، ومعمر أثبت في الزهري من ابن عيينة.

نا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري قال سمعت يحيى بن معين يقول: أثبت الناس في الزهري مالك بن أنس ومعمر ويونس وعقيل وشعيب بن أبي حمزة وابن عيينة.

تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (1/ 131) دار طيبة:

الخامسة: الصحيح أقسام: أعلاها ما اتفق عليه البخاري ومسلم، ثم ما انفرد به البخاري، ثم مسلم، ثم على شرطهما، ثم على شرط البخاري، ثم مسلم، ثم صحيح عند غيرهما.

خلاصہٴ بحث:

مذکورہ روایت کےپہلےطریق میں چمڑا، سینگ، بال، اُون، دانت اور ہڈیاں وغیرہ سب کا ذکر ہے، مگر اس طریق میں اکثر محدثین کرم کے نزدیک ضعفِ شدید اور بعض حضرات کے نزدیک ضعفِ خفیف پایا جاتا ہے، دوسرے طریق میں صرف چمڑا، بال اور اُون کا ذکر ہے، لیکن سند کے اعتبار سے یہ طریق بھی ضعیف ہے  اور چونکہ اس روایت کا تعلق احکام کے باب سے ہے اور احکام میں ضعیف روایت مقبول نہیں، نیز ثقات  سے مروی طرق میں اس اضافے کا ذکر نہیں ہے، اس لیے جمہور محدثین کے ہاں یہ اضافہ قبول نہیں، البتہ بعض فقہائے حنفیہ کے نزدیک امام دارقطنی رحمہ اللہ کا ذکرکردہ  دوسراطریق حسن کا درجہ رکھتا ہے، اس لیے ان کے نزدیک یہ طریق  بھی قابل استدلال ہے، مگر اس طریق سے بھی  فقہائے  حنفیہ رحمہم اللہ نے داخلی استعمال پر استدلال نہیں کیا۔

آخری دو طرق محدثینِ کرام رحمہم اللہ کے اصولوں کے مطابق سند کے اعتبار سے صحیح اور قابلِ استدلال ہیں اور ان دونوں طرق سےشراحِ حدیث کی تشریح کے مطابق صرف  گوشت اور دیگر کھائی جانے والی چیزوں جیسے چربی، جگر اور کلیجی وغیرہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے،  دیگر اعضاء جیسے بال، اُون، دانت اور ہڈیاں وغیرہ کے بارے میں یہ طرق خاموش ہیں، لہذا ان طرق سے  دیگر اجزاء کے داخلی استعمال کا جواز ثابت نہیں ہوتا  اوران طرق میں جو چمڑے کے استعمال کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی صرف خارجی استعمال سے متعلق ہے، اسی لیے محدثین اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اس حدیث کی شرح میں بال اور اُون وغیرہ کے داخلی استعمال  سے متعلق بحث نہیں کی، بلکہ صرف خارجی استعمال سے متعلق بحث کی ہے۔

 

مذاہبِ اربعہ کی روشنی میں مردار کے اجزاء کےداخلی اور خارجی استعمال کا حکم

پیچھے ذکرکی گئی احادیثِ مبارکہ کی بنیاد پر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے بھی مردار کے اجزاء کے داخلی اور خارجی دونوں قسم کے استعمال کے حکم میں فرق بیان کیا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:

جمہور فقہائے کرام  رحمہم اللہ کا موقف:

مردار کے اجزاء کے خارجی استعمال میں  مذاہبِ ثلاثہ (مالکی، شافعی، حنبلی) کے فقہائے کرام رحمہم اللہ کے درمیان  درج ذیل اختلاف  ہے:

 حضراتِ مالکیہ اور حنابلہ رحمہم اللہ کے نزدیک مردار کے وہ اجزاء جن میں زندگی کے آثار ہوتے ہیں، جیسے گوشت، کھال اور دیگر اعضاء وغیرہ نجس ہیں۔ البتہ کھال کو دباغت کےبعد استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اجزاء جن میں زندگی کے آثار نہیں  ہوتے، جیسے بال اور اُون وغیرہ پاک ہیں، ان اعضاء کو دھونے کے بعد خارجی استعمال کے طور پر ان سے نفع اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک یہ حکم ہڈی، سینگ اور ناخن کے علاوہ کا ہے، جہاں تک  ان اجزاء کا تعلق ہے تو راجح قول کے مطابق ان کے نزدیک یہ اجزاء  ناپاک ہیں۔

حضراتِ شافعیہ رحمہم اللہ کے راجح قول کے مطابق  مردار کے تمام اعضاء نجس  اور ناقابلَ استعمال ہیں، خواہ ان میں زندگی کے آثار ہوں یا نہ ہوں، دونوں قسموں کا ایک ہی حکم ہے، اگرچہ مردار کے بالوں اور اُون کے نجس ہونے میں حضراتِ شافعیہ کے درمیان اختلاف ہے، مگرعلامہ نووی المجموع شرح المہذب میں  اور بعض دیگر حضرات رحمہم اللہ نے شافعیہ کا صحیح مذہب اسی کو قرار دیا ہے کہ مردار کے بال بھی نجس ہیں۔  البتہ مردار کی کھال کو دباغت کے بعد پیچھےذكركی گئی  روایت (جس میں چمڑے کو دباغت کے بعد طہارت کا حکم بیان کیا گیا ہے) کی بنیاد پر ان کے ہاں بھی خارجی استعمال کی اجازت ہے۔(ديكھيےعبارات:6,5,4,3,2,1)

جہاں تک مردار کے اجزاء کے داخلی استعمال کا تعلق ہے تو جمہور فقہائے کرام   یعنی مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے صحیحین کی حدیث كے الفاظ"حُرم أكلها" كےمطلق ہونے  کی بناء پر  مردار کے کسی بھی عضو کے داخلی استعمال یعنی کھانے کی اجازت نہیں دی،[7]  خواہ ان میں زندگی کے آثار ہوں یا نہ ہوں، جیسے بال اور اُون وغیرہ۔

1۔المجموع شرح المهذب (1/ 236) دار المعرفة – بيروت:

في مذاهب العلماء في شعر الميتة وعظمها وعصبها: فمذهبنا أن الشعر والصوف والوبر والريش والعصب والعظم والقرن والسن والظلف نجسة: وفي الشعر خلاف ضعيف سبق: وفي العظم خلاف أضعف منه قد ذكره المصنف بعد هذا وأما العصب فنجس بلا خلاف هذا في غير الآدمي وممن قال بالنجاسة عطاء وذهب عمر بن عبد العزيز والحسن البصري ومالك واحمد واسحق والمزني وابن المنذر إلى أن الشعور والصوف والوبر والريش طاهرة والعظم والقرن والسن والظلف والظفر نجسة كذا حكى مذاهبهم القاضي أبو الطيب وحكى العبدري عن الحسن وعطاء والأوزاعي واليث ابن سعدان هذه الأشياء تنجس بالموت لكن تطهر بالغسل وعن مالك وأبي حنيفة وأحمد أنه لا ينجس الشعر والصوف والوبر والريش قال أبو حنيفة وداود وكذا لا ينجس العظام والقرون وباقيها قال أبو حنيفة إلا شعر الخنزير وعظمه ورخص للخرازين في استعمال شعر الخنزير لحاجتهم إليه وعنه في العصب روايتان واحتج لمن قال بطهارة الشعر بقول الله تعالى (ومن أصوافها وأوبارها وأشعارها أثاثا ومتاعا إلى حين) وهذا عام في كل حال وبقوله صلى الله عليه وسلم في الميتة إنما حرم أكلها وهو في الصحيحين وقد قدمناه: وعن أم سلمة عن النبي صلى الله عليه وسلم لا بأس بجلد الميتة إذا دبغ ولا بشعرها إذا غسل وذكروا أقيسة ومناسبات ليست بقوية: واحتج أصحابنا بقول الله تعالى (حرمت عليكم الميتة) وهو عام للشعر وغيره فإن قالوا الشعر ليس ميتة قال أصحابنا قلنا بل هو ميتة فإن الميتة اسم لما فارقته الروح بجميع أجزائه: قال صاحب الحاوي ولهذا لو حلف لا يمسس ميتة فمس شعرها حنث۔

2۔شرح التلقين (1/ 265) أبو عبد الله محمد بن علي بن عمر التَّمِيمي المالكي (المتوفى: 536هـ) دار الغرب الإِسلامي، بيروت:

قوله لا تنتفعوا من الميتة بإهاب ولا عصب يمكن أن يكون أراد به إذا لم تدبغ الأهب. وإذا أمكن هذا تطلبنا دليلًا له. فوجدنا قوله عليه السلام: إذا دبغ الإهاب فقد طهر. نصًا في طهارته بالدباغ فيقضي على الحديث الآخر. ويحمله على أنه أراد به لا تنتفعوا من الميتة بإهاب ولا عصب إذا لم تدبغ الأهب، لا سيما وقد قال في الحديث الآخر إنما حرم أكلها. فخص تحريم الميتة في الأكل خاصة. وهذا يقتضي أن جلدها لا تحرم الصلاة عليه ولا بيعه إذا دبغ. وإذا لم يحرم ذلك منه وجبت طهارته.

3۔التلقين في الفقة المالكي (1/ 28) أبو محمد عبد الوهاب بن علي المالكي (المتوفى: 422هـ) الناشر: دار الكتب العلمية،بيروت:

وأجزاء الميتة كلها نجسة إلا ما لا حياة فيه كالشعر والصوف والوبر وكل حيوان في ذلك واحد وجلود الميتة كلها نجسة لا يطهرها الدباغ غير أنه يجوز استعمالها في اليابسات وعظم الميتة وقرنها نجس.

4۔المعونة على مذهب عالم المدينة (ص: 705) لأبي محمد عبد الوهاب البغدادي المالكي (المتوفى: 422هـ) المكتبة التجارية- مكة المكرمة:

عظم الميتة وقرنها نجس خلافا لأبي حنيفة لأنه جزء كانت فيه حياة كاللحم ويدل على أنه كانت فيه حياة قوله تعالى: {قل يحييها الذي أنشأها أول مرة}، ولأن الإدراك يقع به كاللحم۔

5۔ الكافي في فقه الإمام أحمد (1/ 49) دار الكتب العلمية، بيروت:

فصل: وعظم الميتة وقرنها وظفرها وحافرها نجس لا يطهر بحال؛ لأنه جزء من الميتة فيدخل في عموم قول الله تعالى: {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ} [المائدة: 3] والدليل على أنه منها قول الله تعالى: {قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ} [يس: 78] {قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ} [يس: 79] . ولأن دليل الحياة الإحساس والألم، والضرس يألم ويحس بالضرس، برد الماء وحرارته، وما فيه حياة يحله الموت، فينجس به كاللحم.

6۔المغني لابن قدامة (1/ 51) لابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) مكتبة القاهرة:

[فصل أكل جلد الميتة بعد الدبغ] فصل: ولا يحل أكله بعد الدبغ، في قول أكثر أهل العلم، وحكي عن ابن حامد: أنه يحل. وهو وجه لأصحاب الشافعي؛ لقوله: - صلى الله عليه وسلم - «دباغ الأديم ذكاته» ولأنه معنى يفيد الطهارة في الجلد، فأباح الأكل كالذبح، ولنا قوله تعالى: {حرمت عليكم الميتة} [المائدة: 3] ، والجلد منها، وقال النبي - صلى الله عليه وسلم - «إنما حرم من الميتة أكلها.» متفق عليه؛ ولأنه جزء من الميتة، فحرم أكله كسائر أجزائها، ولا يلزم من الطهارة إباحة الأكل۔

فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کا موقف:

فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ نے ماکول اللحم یعنی حلال جانور اورغیر ماکول اللحم یعنی حرام جانوروں میں سے ہر نوع کے جانوروں کے  دونوں قسم کے اجزاء (جن ميں زندگی حلول كرتی ہے اور جن میں زندگی حلول نہیں کرتی) کے داخلی اور خارجی استعمال  کاحکم علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے، ہر ایک کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

نمبر1:ماکول اللحم مردار کے"ماتحلہ الحیاة"اجزاء کا حکم:

الف: خارجی استعمال:

ماکول اللحم (جس کا گوشت کھایا جاتا ہو، جیسے بکری وغیرہ)مردار کے وہ اجزاء جن میں زندگی حلول کرتی ہے، جیسے گوشت وغیرہ کے  خارجی استعمال کا حکم یہ ہے کہ چونکہ ان اجزاء میں نجس رطوبات پائی جاتی ہیں اور نجس چیز کا عام حالات میں خارجی استعمال شرعاً جائز نہیں، البتہ ان میں سے وہ اجزاء جن کو دباغت دی جا سکتی ہے، جیسے چمڑہ، اوجھ اور مثانہ وغیرہ، ان کو دباغت کے بعد استعمال کر نے ميں کوئی حرج نہیں، کیونکہ دباغت سے یہ اجزاء پاک ہو جاتے ہیں:

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1/ 203) دار الفكر-بيروت:

 (قوله ومثله المثانة والكرش) المثانة موضع البول، والكرش: بالكسر وككتف لكل مجتر بمنزلة المعدة للإنسان قاموس، ومثله الأمعاء. وفي البحر عن التجنيس: أصلح أمعاء شاة ميتة فصلى وهي معه جاز؛ لأنه يتخذ منها الأوتار وهو كالدباغ. وكذلك لو دبغ المثانة فجعل فيها لبن جاز۔

ب: داخلی استعمال:

ماکول اللحم کے ایسے اجزاء کے داخلی استعمال کےسلسلے  میں حنفیہ  کے مذہب میں تفصیل  معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ تغذّی (بطورِ غذا) یا تلذّذ کے لیے ان اجزاء کا  داخلی استعمال جمہورحنفیہ کے نزدیک حالتِ اضطرارکے علاوہ  کسی بھی صورت میں (خواہ ان کو دباغت دی گئی ہو یا نہ) جائز نہیں، البتہ علامہ ابنِ نجیم رحمہ اللہ نے بعض حنفیہ کے حوالے سے دباغت کے بعد ماکول اللحم میتہ کی کھال سے متعلق  داخلی استعمال کے جواز کا قول نقل کیا ہے، لیکن اس کے بعد حرمت کا قول ذکر کر کے اسی کو صحیح قرا ردیا ہے، اسی طرح علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے بھی منحة الخالق میں حرمت کے قول کو ہی صحیح کہا ہے۔[8]

البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 109) دار الكتاب الإسلامي:

ثم اعلم أن في قول المصنف في أصل المسألة دبغ إشارة إلى أنه يستوي أنه يكون الدابغ مسلما أو كافرا أو صبيا أو مجنونا أو امرأة إذا حصل به مقصود الدباغ، فإن دبغه الكافر وغلب على الظن أنهم يدبغون بالسمن النجس، فإنه يغسل كذا في السراج الوهاج وفيه مسألة جلد الميتة بعد الدباغ هل يجوز أكله إذا كان جلد حيوان مأكول اللحم قال بعضهم نعم؛ لأنه طاهر كجلد الشاة المذكاة وقال بعضهم: لا يجوز أكله، وهو الصحيح لقوله تعالى {حرمت عليكم الميتة} [المائدة: 3]، وهذا جزء منها«وقال - عليه السلام - في شاة ميمونة - رضي الله تعالى عنها - إنما يحرم من الميتة أكلها مع أمره لهم بالدباغ والانتفاع»، وأما إذا كان جلد ما لا يؤكل كالحمار، فإنه لا يجوز أكله إجماعا؛ لأن الدباغ فيه ليس بأقوى من الذكاة وذكاته لا تبيحه فكذا دباغه. اهـ.

[منحة الخالق]

 (قوله: كجلد الشاة المذكاة) قال الرملي أقول: يعني في الحل وسواء فيها قبل الدباغ وبعده كنحو أكل تراب لا يضر فحل جلد المذكاة قبل الدباغ وبعده حيث كان من مأكول اللحم متفق عليه وحرمته من غير المأكول كذلك والخلاف في جلد الميتة من المأكول بعد الدباغة والصحيح حرمته تأمل۔

جہاں تک ان اجزاء کے  تداوی کے لیے استعمال  کا تعلق ہے تو  اصول کی رُو سے ایسے اجزاء (جن کو دباغت دی جا سکتی ہے) کو  دباغت کے بعد تداوی کے لیے استعمال کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی  ہے، کیونکہ دباغت کے عمل سے نجس رطوبات نکل جاتی ہیں اور یہ اجزاء پاک ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے  ان کا حکم دوسری قسم یعنی بال، اُون اور ہڈی وغیرہ کی طرح ہو جاتا ہے اور حنفیہ کے ہاں بال، اُون اور ہڈی کا تداوی کے لیےداخلی استعمال جائز ہے۔چنانچہ فتاوی ہندیہ میں خنزیر کے علاوہ  ہر قسم کے جانورکی ہڈی کو تداوی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں نجس رطوبات نہیں ہوتیں، لہذا ماکول اللحم مردار کی کھال اور اوجھ کا حکم بھی دباغت کے بعد نجس رطوبات نکل جانے کی وجہ سے یہی معلوم ہوتا ہے، اگرچہ حالتِ اضطرار نہ ہو، دیکھیے عبارت:

 الفتاوى الهندية (5/ 354) دار الفكر، بيروت:

وقال محمد - رحمه الله تعالى - ولا بأس بالتداوي بالعظم إذا كان عظم شاة أو بقرة أو بعير أو فرس أو غيره من الدواب إلا عظم الخنزير والآدمي فإنه يكره التداوي بهما فقد جوز التداوي بعظم ما سوى الخنزير والآدمي من الحيوانات مطلقا من غير فصل بينما إذا كان الحيوان ذكيا أو ميتا وبينما إذا كان العظم رطبا أو يابسا وما ذكر من الجواب يجري على إطلاقه إذا كان الحيوان ذكيا لأن عظمه طاهر رطبا كان أو يابسا يجوز الانتفاع به جميع أنواع الانتفاعات رطبا كان أو يابسا فيجوز التداوي به على كل حال وأما إذا كان الحيوان ميتا فإنما يجوز الانتفاع بعظمه إذا كان يابسا ولا يجوز الانتفاع إذا كان رطبا وأما عظم الكلب فيجوز التداوي به هكذا قال مشايخنا وقال الحسن بن زياد لا يجوز التداوي به كذا في الذخيرة.

واضح ر ہےکہ مذکورہ عبار ت میں جوازِ تداوی سے حالتِ اضطرار میں جائز ہونا  مرادنہیں کہ جان جانے کا خطرہ ہو اور کوئی دوسرا متبادل موجود نہ ہو تو اس کی اجازت ہے،کیونکہ ایسےاضطرار میں تو خنزیر سے بھی تداوی جائز ہے، حالانکہ اس عبارت میں خنزیر کا استثناء کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حالتِ اضطرار کے علاوہ عام امراض میں بھی ان اجزاءکے استعمال کی گنجائش ہے، خواہ حلال جانور کےاجزاء ہوں یا حرام جانور کے۔ چنانچہ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ہڈی کا کھانا بوجہِ ضرر کے مکروہ ہے، اگر دواءً کھائے تو مضائقہ نہیں ،بشرطیکہ آدمی اورخنزیر کی نہ ہو، ماکول اللحم کی ہڈی تو دوا میں خشک وتر دونوں جائز ہیں اور غیر ماکول کی خشک جائز ہے، تر جائز نہیں، البتہ نرم ہڈی جس کو چپنی کہتے ہیں بوجہ عدمِ ضرر کے کھا لینا جائز ہے، وإن أضر فلا۔"                            امداد الاحکام(ج:4ص:311)

باقی تغذّی اور تداوی کے حکم میں فرق  اس لیے کیا گیاہے کہ تغذّی اور تلذّذ میں جلبِ منفعت کا عنصر غالب ہوتا ہے، جبکہ حالتِ تداوی میں دفعِ مضرت کا عنصرپایا جاتا ہے اور دفعِ مضرت کو جلبِ منفعت پر شرعاً ترجیح حاصل ہے، لہذا  صرف دفعِ مضرت کے لیے حرام چیز کے استعمال کی اجازت دی جا سکتی ہے، جلبِ منفعت کے لیے نہیں۔

 

2۔ماکول اللحم مردار کے"ما لاتحلها الحياة"اجزاء کا حکم:

الف: خارجی استعمال:  

ماکول اللحم مردار كے وه اجزاء جن میں زندگی حلول نہیں کرتی، جیسے بال اور اُون وغیرہ ان کےخارجی استعمال کے  بارے میں فقہائے حنفیہ نے یہ اصول ذکر فرمایا ہے:

 إنما يؤثر الموت النجاسة فيما تحله الحياة و مالا تحلها فلا يحلها الموت، وإذا لم يحلها وجب الحكم ببقاء الوصف الشرعي المعهود لعدم المزيل۔[9]

ترجمہ: موت ان اجزاء میں نجاست کا سبب بنتی ہے جن میں زندگی حلول کرتی ہے اورجن میں زندگی حلول نہیں کرتی ان میں موت بھی اثر انداز نہیں ہوتی اور جب ان اجزاء میں زندگی حلول نہیں کرتی تو مزیل کے نہ ہونے کی وجہ سے پہلے والا حکم شرعی (ان اجزاء کا پاک ہونا) باقی رہے گا۔                                                                                                                                                                                      

اسی اصول کے پیشِ نظر فقہائےاحناف  رحمہم اللہ نے خنزیر کے علاوہ ہر قسم کےمردارجانور (خواه وه فی نفسہ حلال ہوں یا حرام) كےان تمام اعضاء کو پاک قرار دیا ہے جن میں زندگی کے آثار نہیں ہوتے، جیسے ناخن، سینگ، بال اور ہڈی وغیرہ۔ اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جانور کے کسی بھی عضو میں نجس رطوبات اس وقت سرایت کرتی ہیں جب اس میں خون کا وجود پایا جائے، جبکہ ان اعضاء میں خون نہیں ہوتا  اور خون نہ ہونے کی وجہ سے موت سے یہ اجزاء ناپاک نہیں ہوتے،[10] اس لیے  حنفیہ کے نزدیک  جانور کے ایسے تمام اجزاء پاک ہیں اور ان کا خارجی استعمال بلاشبہ جائز اور درست ہے، خواہ یہ اجزاء کسی زندہ جانور سے حاصل کیے گئے ہوں یا مذبوحہ سے یا مردار سے، بہر صورت ایک ہی حکم ہے، نیز خارجی استعمال کے لیے ان کو دباغت وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں ہے، بلکہ صرف پانی سے دھونا کافی ہے، تاکہ اگر ان اعضاء پر ظاہری طور پر کوئی نجس رطوبت  وغیرہ لگی ہو تو وہ دور ہو جائے۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 26) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:

قال - رحمه الله - (وشعر الإنسان والميتة وعظمهما طاهران) لما روي عن ابن عباس - رضي الله  عنهما - أنه قال «سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول ألا كل شيء من الميتة حلال إلا ما أكل منها» «وكان للنبي - صلى الله عليه وسلم - مشط من عاج»، ولأنه «- عليه السلام - ناول شعره أبا طلحة فقسمه بين الناس» ولو كان نجسا لما فعل ذلك، وقال الشافعي هما نجسان والحجة عليه ما روينا ولأنه لا حياة فيهما حتى لا يتألم الحيوان بقطعهما فلا يحلهما الموت وأراد بالميتة غير الخنزير، وأما الخنزير فجميع أجزائه نجس العين۔

مراقي الفلاح للشرنبلالي (المتوفى: 1069هـ) (ص: 107) المكتبة العصرية:

(وكل شيء) من أجزاء الحيوان غير الخنزير ( لا يسري فيه الدم لا ينجس بالموت ) لأن النجاسة باحتباس الدم وهو منعدم فيما هو (كالشعر والريش المجزوز) لأن المنسول جذره نجس ( والقرن والحافر والعظم ما لم يكن به ) أي العظم (دسم) أي ردك لأنه نجس من الميتة فإذا زال عن العظم زال عنه النجس والعظم في ذاته طاهر لما أخرج الدارقطني "إنما حرم رسول الله صلى الله عليه و سلم من الميتة لحمها" فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به ( والعصب نجس في الصحيح ) من الرواية لأن فيه حياة بدليل التألم بقطعه وقيل طاهر لأنه عظم غير صلب.

ب:داخلی استعمال:

جہاں تک ماکول اللحم جانور کے  اِن اجزاء کے داخلی استعمال کا تعلق ہے تو حنفیہ کی عبارات میں اس کی کہیں صراحت  نہیں ملی، البتہ پیچھے ذکر کیے گئے اصول سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اجزاء کے داخلی استعمال کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ اس اصول کے مطابق موت اُن اجزاء میں نجاست کا سبب بنتی ہے جن میں زندگی حلول کرتی ہے، جن اجزاء میں زندگی حلول نہیں کرتی، جیسے سینگ، بال اور اُون وغیرہ، ان میں موت بھی اثر انداز نہیں ہوتی اور جب ان اجزاء میں زندگی حلول نہیں کرتی تو مزیلِ حیات یعنی موت کے طاری  نہ ہونے کی وجہ سے پہلے والا حکم شرعی (ان اجزاء کا حلال ہونا) باقی رہے گا۔  لہذا مردارکے وہ اعضاء جن میں زندگی کے اثرات  نہیں ہوتے ان کو اپنے  اصل حکم (ان کا حلال ہونا، کیونکہ نص میں اصل کے اعتبار سے ان جانوروں کو حلال کہا گیا ہے اور مردار کے اجزاء میں حرمت موت کے حلول کرنے کی وجہ سے آئی تھی، لہذا جن اجزاء میں موت حائل نہیں ہوئی ان کا اپنی اصل پر باقی رہنا قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے) پر برقرار رکھتے ہوئے ان اجزاء کی حلت معلوم ہوتی ہے، بشرطیکہ فی نفسہ جانور حلال ہو، جیسے بکری اور بھیڑ وغیرہ۔

 

2۔ غیرماکول اللحم مردار کے"ما تحلہ الحیاة" کا حکم:

الف: خارجی استعمال:

تمام اقسام کےغیرماکول اللحم یعنی حرام جانور کے ایسے اجزاء (جن میں زندگی حلول کرتی ہے) کے خارجی استعمال کی اجازت  نہیں، کیونکہ ان میں نجاست سرایت کر چکی ہے اور نجاست والی چیز کا خارجی استعمال درست نہیں، البتہ  ان میں سے قابلِ دباغت اجزاء کو  دباغت وغیرہ کے ذریعہ سے اگر نجاست سے پاک کر لیا جائے تو پھر ان کا حکم ماکول اللحم کے اجزاء کی طرح ہو گا اور ایسے اجزاء  کو  خارجی استعمال میں لانا درست ہوگا۔

ب: داخلی استعمال:

غیرماکول اللحم یعنی حرام جانور کے وہ اجزاء جن میں زندگی حلول کرتی ہے، ان کا داخلی استعمال عام حالات میں جائز نہیں، کیونکہ جب شریعت نے ذبح کے عمل کے ذریعہ ان کے کھانے کو حرام قرار دیا ہے تو مردار ہونے کی صورت میں ان کا کھانا بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہو گا، البتہ اگر حالتِ اضطرار کا تحقق ہو جائے، یعنی مردار نہ کھانے کی صورت میں جان ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو ایسی حالت میں بقدرِ ضرورت داخلی استعمال کی اجازت ہے، کیونکہ ایسی صورت میں نصِ قرآنی میں رخصت دی گئی ہے۔

2۔ غیرماکول اللحم مردار کے"ما لاتحلہ الحیاة" کا حکم:

الف: خارجی استعمال:

غیرماکول اللحم مردار کے اِن اجزاء (جن ميں زندگی حلول نہیں کرتی) كے خارجی استعمال كا حكم ماکول اللحم جانور کے اجزاء کی طرح ہے اور ماکول اللحم کے ایسے اجزاء کے بارے میں  حنفیہ کااصول پیچھے گزر چکا ہے کہ یہ چونکہ ان میں زندگی حلول نہیں کرتی، جس کی وجہ سے یہ اجزاء ناپاک نہیں ہوتے، بلکہ پاک ہی رہتے ہیں، اس لیے حنفیہ کے نزدیک خنزیر کے علاوہ تمام قسم کےجانوروں کے ان اجزاء کا خارجی استعمال جائز ہے، بشرطیکہ ان اجزاء پر ظاہری نجاست نہ لگی ہو۔

الف: داخلی استعمال:

جہاں تک ایسے اجزاء کے داخلی استعمال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ نے ان اجزاء کو تداوی یعنی بطورِ دوا استعمال کرنے کی تو تصریح فرمائی ہے،  جیسا کہ فتاوی ہندیہ کی عبارت پیچھے گزر چکی ہے، جس میں خنزیر اور انسان کی ہڈی کے علاوہ جانور کی ہڈی کو تداوی کے لیے استعمال کی اجازت دی گئی ہے، البتہ تداوی کے علاوہ تغذّی یا تلذّذ کے لیے استعمال کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ یہ جانور فی نفسہ اپنی اصل کے اعتبار سے حرام ہیں، لہذا موت کے طاری ہونے سے پہلے جیسے ان کا داخلی استعمال منع ہے تو موت کے بعد بھی منع ہو گا، البتہ تداوی کے لیے  ضرورت اور دفعِ مضرت کی وجہ سے گنجائش ہے۔

فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کی عبارات کا خلاصہ:

فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کی عبارات کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں نکلتا ہے:

  1. ماکول اللحم مردار کے وہ اعضاء جن میں زندگی حلول کرتی ہے ان کا خارجی اور داخلی استعمال دونوں منع ہیں، البتہ جن اعضاء کو دباغت دی جا سکتی ہے، جیسے کھال وغیرہ، ان کو دباغت کے بعد خارجی طور پر استعمال میں لانے کی اجازت ہے، اسی طرح ایسی صورت میں تداوی کے لیے داخلی استعمال کی بھی گنجائش ہے، اگرچہ حالتِ اضطرار نہ ہو۔

اور وہ اعضاء جن میں زندگی حلول نہیں کرتی، جیسے بال اور اُون وغیرہ تو حنفیہ کے نزدیک چونکہ ان میں موت طاری نہیں ہوتی، اس لیے اپنے اصل حکم یعنی حلت پر برقرار رکھتے ہوئے ان کا خارجی اور داخلی دونوں استعمال جائز ہیں، خواہ بطورِ غذا یا بطورِ دواء استعمال کیا جائے، دونوں طرح درست ہے۔

  1. غیر ماکول اللحم مردار کے وہ اعضاء جن میں زندگی حلول کرتی ہے، ان کا بھی داخلی اور خارجی استعمال دونوں منع ہیں، البتہ قابلِ دباغت اعضاء کو دباغت کے بعد خارجی استعمال میں لانا اور تداوی کے لیے داخلی استعمال میں لانے کی گنجائش ہے، البتہ تغذّی یا تلذّذ کے لیے  استعمال کی اجازت نہیں۔اسی طرح  وہ اعضاء جن میں زندگی حلول نہیں کرتی ان کا خارجی استعمال بغیر دباغت کے جائز ہے اور داخلی استعمال صرف تداوی کے لیے جائز ہے، کیونکہ تداوی میں دفع مضرت کا عنصر ہوتا ہے۔

روغنِ پشم کا حکم:

صورتِ مسئولہ میں فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کی عبارات کی روشنی میں روغنِ پشم یعنی لینولن (Lanolin ) مادے پر مشتمل تمام اشیاء کا خارجی استعمال تو بلاشبہ جائز ہے، خواه  اس میں استعمال ہونے والی اُون زندہ بھیڑ سے لی گئی ہو یا مذبوحہ یا مردار سے۔ جہاں تک داخلی استعمال کا تعلق ہے تو  اگر روغنِ پشم میں استعمال ہونے والی اُون سے مضرِ صحت عناصر نکال کر یہ روغن تیار کیا گیا ہو اورپھروہ روغن کسی مشروب میں استعمال کیا گیا ہو  تو پیچھے ذکرکیے گئے حنفیہ کے  اصول (مالا تحله الحياة فلا يحله الممات)سے  اس کے استعمال کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، خصوصاً جبکہ اس میں عموم بلوی کی وجہ سے حاجت بھی ہے،  البتہ مضرِ صحت اجزاء نکالنے کے باوجود اگر ایسا مشروب کسی شخص کی صحت  کے موافق نہ ہو تو اس کے لیے  اس کا استعمال  درست نہیں۔

واضح رہے کہ پیچھے ذکر کیا گیا حکم اس وقت ہے جب بھیڑ کی اُون سے روغن بناتے وقت  انقلابِ ماہیت نہ ہوتا ہو، لیکن اگر انقلابِ ماہیت ہو جائے تو ایسی صورت میں اس روغن کا داخلی استعمال بلاشبہ جائز ہو گا۔

 


[1] السنن الكبرى للبيهقي (1/ 37، رقم الحديث: 81) دار الكتب العلمية، بيروت:

أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد بن أحمد الفقيه، أنا علي بن عمر الحافظ، ثنا محمد بن مخلد، ثنا العباس بن محمد بن حاتم، ثنا شبابة، ثنا أبو بكر الهذلي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس " إنما حرم من الميتة ما يؤكل منها وهو اللحم فأما الجلد والسن والعظم والشعر والصوف فهو حلال ". قال علي: أبو بكر الهذلي ضعيف.

[2] مقدمة المصنف لابن أبي شيبة للشيخ محمد عوامة حفظه الله تعالى:(ج:1ص:83) إدارة القران والعلوم الإسلامية بكراتشي:

وأول من رأيته أنصف ابن حبان وتوثيقه للرواة: الحافظ العراقي فقد سأله تلميذه الحافظ ابن حجر رحمهما لله فقال ما يقول سيدي في أبي حاتم ابن حبان إذا انفرد بتوثيق رجل لا يعرف حاله إلا من جهة توثيقه له، ھل ينھض توثيقه بالرجل إلى درجة من يحتج به؟ وإذا ذكر ذلك الرجل بعينه أحد الحفاظ كأبي حاتم الرازي بالجهالة ھل يرفعها عنه توثيق ابن حبان له وحده أم لا؟

فإجابه العراقي بقوله: إن الذين انفرد  ابن حبان بتوثيقم لايخلو:

إما أن يكون الواحد منهم لم يرو عنه إلا راو واحد۔

أو روى عنه اثنان ثقتان وأكثر بحيث ارتفعت جهالة عينه۔

فإن كان روي عنه اثنان فأكثر ووثقه ابن حبان ولم نجد لغيره فيه جرحا فھو ممن يحتج به، وإن وجدنا لغيره فيه جرحا مفسرا فالجرح مقدم، وقد وقع لابن حبان جماعة ذكرهم في الثقات وذكرهم في الضعفاء فينظر أيضا إن كان جرحه له مفسرا فهو مقدم على توثيقه۔

فأما من وثقھم ولا يعرف للواحد منھم إلا راوي واحد فقد ذكر ابن القطان في كتابه بيان الوھم والأيهام أن من لم يرو عنه ألا واحدووثق فأنه تزول جهالته بذلك۔۔۔۔۔۔۔۔وأما إذا تعارض توثيق ابن حبان بتجھيل أبي حاتم الرازي لمن وثقه فمن حال الراوي بالثقة مقدم على من جهل حاله؛ لأن من عرف معه زيادة علم لكن ابن حبان منسوب إلى التساهل في التصحيح والتوثيق لكنه أرفع درجة من الحاكم قال أبوبكر الحازمي: وابن حبان أمكن في الحديث من الحاكم۔

دراسات الکاشف (صفحہ:۹۵) داراليسر، بيروت:

وكلامه في مقدمة "الثقات" صريح في أن الأصل في المسلم البراءة والعدالة قال رحمه الله: "إن العدل من لم يعرف منه الجرح (إذ التجريح) ضد التعديل، فمن لم يعلم بجرح فهو عدل إذا لم يبين ضده إذ لم يكلف الناس معرفة ما غاب عنهم وإنما كلفوا الحكم بالظاهر" فجعل العدالة مرتكزة على أمرسلبي هو عدم وجود شيئ جارح فيه في حين أنه جعلها مرتكزة على أمر إيجابي في مقدمة "صحيحه" هو التزامه في غالب شؤونه بأحكام الإسلام أمرا ونهيا وفعلا وتركا۔

[3]الفوائد (1/ 300، رقم الحديث: 755) أبو القاسم تمام بن محمد بن عبد الله الرازي ثم الدمشقي (المتوفى: 414ھ) مكتبة الرشد – الرياض:

أخبرنا أبو الميمون عبد الرحمن بن عبد الله بن راشد، وأبو عبد الله بن مروان، في آخرين، قالوا: ثنا أبو عبد الملك أحمد بن إبراهيم القرشي، ثنا محمد بن آدم المصيصي، ثنا الوليد بن مسلم، عن أخيه عبد الجبار بن مسلم، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال: «إنما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم من الميتة لحمها، فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به» لم يسند عبد الجبار غير هذا الحديث۔

معجم ابن الأعرابي (3/1099، رقم الحدیث: 2367) أبو سعيد بن الأعرابي أحمد بن محمد بن زياد البصري الصوفي (المتوفى: 340هـ) دار ابن الجوزي:

حدثنا معاذ بن جبل بن العباس بن سهل أبو عبد الرحمن، بأنطاكية نا محمد بن عبد الرحمن بن سهم، حدثنا الوليد بن مسلم، عن أخيه عبد الجبار بن مسلم، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس قال: إنما حرم من الميتة لحمها، فأما الجلد والعظم والشعر فلا بأس به۔

[4] الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة للإمام ابن قطلوبغا (4/ 14) مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية اليمن۔

کذا فی مقدمة التحقيق للثقات ممن لم يقع في الكتب الستة  (1/ 206) مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية اليمن:

الفصل الثاني في الشرط الثاني: أن يذكر الراوي بنوع تعديل:

 نستطيع أن نلخص أهم المسائل التي تبرز وتوضح منهج الحافظ ابن قطلوبغا الخاص بهذا الشرط في النقاط التالية:

يترجم ابن قطلوبغا لمن ذكر فيه نوع تعديل ولو كان عنده كذابا أو متروكا، أو ضعيفا، يدلنا على هذا بجلاء نقله في ترجمة أحمد بن محمد بن غالب غلام خليل  قول مسلمة بن قاسم فيه: ثقة من القراء .. ، ثم علق ابن قطلوبغا على قول مسلمة بقوله: «لولا قول مسلمة ما ذكرته، إلا أنني التزمت ذكر كل من ذكر فيه نوع تعديل» ثم أخذ يسرد أقوال الأئمة المكذبين لغلام الخليل أو المضعفين له، ورجح ابن قطلوبغا أنه ضعيف جدا ولكنه لا يفتعل الحديث۔

[5] بعض روایات میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے "العاج" (اکثر حضرات نے اس کا ترجمہ ہاتھی کے دانت سے کیا ہے)کےساتھ کنگی کرنے کا ذکر ملتا ہے، اگرچہ سند کے اعتبار سے ان روایات  میں ضعف ہے اور احکام کے باب میں ضعیف روایت مقبول نہیں ہوتی،  لیکن بعض حضرات نے کثرتِ طرق کی بناء پر اس روایت پر حسن کا حکم لگایا ہے، اس صورت میں یہ روایات مقبول ہوں گی:

السنن الكبرى للبيهقي (1/ 42) دار الكتب العلمية، بيروت:

عن أنس، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أخذ مضجعه من الليل وضع طهوره وسواكه ومشطه، فإذا هبه الله تعالى من الليل استاك، وتوضأ وامتشط ". قال: " ورأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتمشط بمشط من عاج ". قال عثمان: هذا منكر. قال الشيخ: رواية بقية عن شيوخه المجهولين ضعيفة. وقد قال أبو سليمان الخطابي: قال الأصمعي العاج الذبل ويقال: هو عظم ظهر السلحفاة البحرية. وأما العاج الذي تعرفه العامة فهو عظم أنياب الفيلة وهو ميتة لا يجوز استعماله۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 97) دار الفكر،بيروت:

وأخرج البيهقي عن بقية عن عمرو بن خالد عن قتادة عن أنس «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يمتشط بمشط من عاج» قال: ورواية بقية عن شيوخه المجهولين ضعيفة.

وقال الخطابي: قال الأصمعي: العاج الذبل وهو ظهر السلحفاة. وأما العاج الذي تعرفه العامة عظم أنياب الفيل فهو ميتة لا يجوز استعماله انتهى. وفيه أمران: أحدهما أنه أوهم أن الواسطي مجهول وليس كذلك، والآخر إيهامه بقوله الذي تعرفه العامة أنه ليس من اللغة وليس كذلك. قال في المحكم: العاج أنياب الفيلة، ولا يسمى غير الناب عاجا.

وقال الجوهري: العاج عظم الفيل الواحدة عاجة فبهذا يكون إن صح ما عن الأصمعي تأويلا للمراد لما اعتقد نجاسة عظم الفيل. فهذه عدة أحاديث لو كانت ضعيفة حسن المتن فكيف ومنها ما لا ينزل عن الحسن وله الشاهد الأول من الصحيحين۔

 

[6] موطأ مالك برواية الامام محمد  (ص: 342، رقم الحدیث: 987) المكتبة العلمية، بيروت:

أخبرنا مالك، أخبرنا ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاة كان أعطاها مولى لميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم ميتة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هلا انتفعتم بجلدها»، قالوا: يا رسول الله إنها ميتة، قال: «إنما حرم أكلها» .

[7] حنفیہ حضرات اس روایت کا یہ جواب دیتے ہیں کہ عام طور پر چونکہ گوشت ہی کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے یہاں کھانے کی حرمت کا تعلق صرف گوشت کے ساتھ ہے، جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس روایت  کے دیگر طرق  میں "أكلھا" كی بجائے "لحمھا" کے الفاظ آئے ہیں، جن سے گوشت کے علاوہ دیگر اعضاء کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔نیز کئی شراحِ حدیث نے پہلی روایت میں "أكلھا"  کی تشریح "ما يؤكل منھا"سے کی ہے، اگرچہ شراحِ حدیث کے پیشِ نظراس عبارت سےگوشت کے علاوہ دیگر اجزاء کی حلت بمعنی جوازِ اکل  کو ثابت کرنا نہیں، عبارات ملاحظہ فرمائیں:

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (9/ 89) دار إحياء التراث العربي،بيروت:

قوله: (إنما هو حرام أكلها) قلت: الأكل غالب في اللحم، فكأنه قال: اللحم حرام لا الجلد. قلت: لو اطلع الكرماني على ما ذكرنا الآن لما احتاج إلى هذا السؤال ولا إلى الجواب.

شرح السنة للبغوي (2/101) المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت:

في قوله: «إنما حرم أكلها» مستدل لمن ذهب إلى أن ما عدا المأكول من أجزاء الميتة غير محرم الانتفاع به، كالشعر والسن والقرن ونحوها، واختلف فيها أهل العلم، فذهب قوم إلى أن هذه الأشياء فيها حياة تنجس بموت الحيوان كالجلد، وإذا دبغ جلد الميتة وعليه شعر، فالشعر لا يطهر بالدباغ، وهو قول الشافعي. وذهب قوم إلى أنه لا حياة في الشعر والريش، ولا ينجس بموت الحيوان، وجوزوا الصلاة فيها، وهو قول حماد، ومالك، وأصحاب الرأي، قال مالك: «لا بأس بالصلاة في صوف الميتة وشعرها إذا غسل۔

 

[8] امام شافعی رحمہ اللہ کا قولِ جدید یہ  ہے کہ دباغت دینے سے ماکول اللحم مردار کی کھال کا داخلی استعمال جائز ہے، مگر شافعیہ کے نزدیک بھی اس قول پر فتوی نہیں ہے، بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے قدیم قول کے مطابق عدمِ جواز پر ہی فتوی ہے،  جیسا کہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے المجموع شرح المہذب(1/ 66) میں تصریح کی ہے۔

فقه البيوع (ج:1ص:302) مكتبة معارف القران كراتشي:

بيع الميتة وأجزاءها: ۔۔۔۔۔فلايجوز بيع جلدها قبل الدبغ، ويجوز بيعه بعد الدبغ؛ لأنه يطهر بالدباغ، فيحل الانتفاع به في غير الأكل بالاتفاق، وبأكله أيضا عند بعض الفقھاء الشافعية والحنفيةمما يؤكل لحمه۔

 [9] فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 97) دار الفكر، بيروت۔

[10] مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي (المتوفى: 1069هـ) (ص: 107) المكتبة العصرية:

 ( وكل شيء ) من أجزاء الحيوان غير الخنزير ( لا يسري فيه الدم لا ينجس بالموت)

 

حوالہ جات
فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 97) دار الفكر، بيروت:
(قوله وشعر الميتة) كل ما لا تحله الحياة من أجزاء الهوية محكوم بطهارته بعد موت ما هي جزؤه كالشعر والريش والمنقار والعظم والعصب والحافر والظلف واللبن والبيض الضعيف القشر والإنفحة، لا خلاف بين أصحابنا في ذلك، وإنما الخلاف بينهم في الإنفحة واللبن هل هما متنجسان؟ فقالا نعم لمجاورتهما الغشاء النجس فإن كانت الإنفحة جامدة تطهر بالغسل وإلا تعذر طهرهما وقال أبو حنيفة: ليسا بمتنجسين، وعلى قياسهما قالوا في السخلة إذا سقطت من أمها وهي رطبة فيبست ثم وقعت في الماء لا ينجس لأنها كانت في معدنها، فهاتان خلافيتان مذهبية وخارجة.ولنا فيها أن المعهود فيها حالة الحياة الطهارة، وإنما يؤثر الموت النجاسة فيما تحله ولا تحلها الحياة فلا يحلها الموت، وإذا لم يحلها وجب الحكم ببقاء الوصف الشرعي المعهود لعدم المزيل، وفي السنة أيضا ما يدل عليه وهو قوله - صلى الله عليه وسلم - «في شاة مولاة ميمونة حين مر بها ميتة إنما حرم أكلها» في الصحيحين. وفي لفظ «إنما حرم عليكم لحمها ورخص لكم في مسكها» وأخرج الدارقطني عن عبيد الله بن عبد الله بن عباس «إنما حرم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من الميتة لحمها، فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به» وأعله بتضعيف عبد الجبار بن مسلم وهو ممنوع، فقد ذكره ابن حبان
في الثقات فلا ينزل الحديث عن الحسن. ثم أخرجه من حديث أبي بكر الهذلي عن عبيد الله بن عبد الله بن عباس قال: سمعت - صلى الله عليه وسلم - قال « {قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه} [الأنعام: 145] ، ألا كل شيء من الميتة حلال إلا ما أكل منها» فأما الجلد والقرون والشعر والصوف والسن والعظم فكله حلال لأنه لا يذكى، وأعله بأن أبا بكر هذا متروك. وأخرج أيضا عن أم سلمة زوج النبي - صلى الله عليه وسلم - عنه - صلى الله عليه وسلم - «لا بأس بمسك الميتة إذا دبغ، ولا بأس بصوفها ولا شعرها وقرونها إذا غسل بالماء» وضعفه بأن يوسف بن أبي السفر بالسين المهملة المفتوحة وسكون الفاء متروک۔
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (1/ 206) دار الفكر-بيروت:
(وشعر الميتة) غير الخنزير على المذهب (وعظمها وعصبها) على المشهور (وحافرها وقرنها) الخالية عن الدسومة وكذا كل ما لا تحله الحياة حتى الإنفحة واللبن على الراجح۔
 
قال ابن عابدين: (قوله وشعر الميتة إلخ) مع ما عطف عليه خبره قوله الآتي طاهر لما مر من حديث الصحيحين، من قوله - عليه الصلاة والسلام - في شاة ميمونة «إنما حرم أكلها» وفي رواية «لحمها» فدل على أن ما عدا اللحم لا يحرم فدخلت الأجزاء المذكورة وفيها أحاديث أخر صريحة في البحر وغيره، ولأن المعهود فيها قبل الموت الطهارة فكذا بعده؛ لأنه لا يحلها۔
اللباب في الجمع بين السنة والكتاب (1/ 71) دار القلم، بيروت:
(باب شعر الميتة ووبرها وصوفها وريشها وعظمها وعصبها طاهر):
البخاري ومسلم: عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: " تصدق على مولاة لميمونة بشاة فماتت فمر بها رسول الله [صلى الله عليه وسلم] فقال: هلا أخذتم إهابها فدبغتموه فانتفعتم به، فقالوا: إنها ميتة، قال: إنما حرم أكلها ". ففي هذا دليل على أن ما عدا المأكول
من أجزاء الميتة لا يحرم الانتفاع به، وقوله عليه السلام: " هلا انتفعتم بجلدها " ليس فيه
دليل على أنه لا يجوز الانتفاع بغيره، لأنه خرج مخرج الغالب، مع أن الجلد اسم للصوف وما هو متصل به، ولأن هذه الأشياء لا حياة فيها، ولهذا لا تتألم بالقطع فلا يحلها الموت فلا تنجس.
شرح منتهى الإرادات (1/ 31) منصور بن يونس بن صلاح الدين البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ)عالم الكتب، بيروت:
(لا) ينجس (صوف وشعر وريش ووبر من) حيوان (طاهر في حياة) بموت أصله، لقوله تعالى {ومن أصوافها وأوبارها وأشعارها أثاثا ومتاعا إلى حين} [النحل:80] والآية سيقت للامتنان، فالظاهر شمولها الحياة والموت. والريش مقيس على الثلاثة، وأما أصول ذلك فنجسة، لأنها من أجزاء الميتة۔
شرح مختصر خليل لمحمد بن عبد الله الخرشي المالكي (1/ 83) (المتوفى:    1101هـ)دار الفكر للطباعة – بيروت:
(ص) وصوف ووبر وزغب ريش وشعر ولو من خنزير إن جزت (ش) يريد أن ذلك طاهر من سائر الحيوانات ولو أخذت بعد الموت؛ لأنه مما لا تحله الحياة وما لا تحله الحياة لا ينجس بالموت وأيضا فإنه طاهر قبل الموت فبعده كذلك عملا بالاستصحاب۔
الفقه على المذاهب الأربعة  لعبد الرحمن الجزائري (1/ 13) دار الكتب العلمية، بيروت:
المالكية قالوا: إن أجزاء الميتة التي تحلها الحياة هي اللحم والجلد والعظم والعصب ونحوها، بخلاف نحو الشعر والصوف والوبر وزغب الريش، فإنها لا تحلها الحياة فليست بنجسة.
 
الشافعية قالوا: إن جميع أجزاء الميتة من عظم ولحم وجلد وشعر وريش ووبر غير ذلك نجس، لأنها تحلها الحياة عندهم.
الحنفية قالوا إن لحم الميتة وجلدها مما تحله الحياة، فهما نجسان، بخلاف نحو العظم والظفر والمنقار والمخلب والحافر والقرن والظلف والشعر، إلا شعر الخنزير فإنها طاهرة
لأنها لا تحلها الحياة، لقوله صلى الله عليه وسلم في شاة ميمونة: "إنما حرم أكلها" وفي رواية "لحمها" فدل على أن ما عدا اللحم لا يحرم، فدخلت الأجزاء المذكورة ما لم تكن بها دسومة، فإنها تكون متنجسة بسبب هذه الدسومة، والعصب فيه روايتان: المشهور أنه طاهر، وقال بعضهم: الأصح نجاسته.
الحنابلة قالوا إن جميع أجزاء الميتة تحلها الحياة فهي نجاسة إلا الصوف والشعر والوبر والريش، فإنها طاهرة، واستدلوا على طهارتها بعموم قوله تعالى: {ومن أصوافها وأوبارها وأشعارها أثاثاً ومتاعاً إلى حين}، لأن ظاهرها يعم حالتي الحياة والموت، وقيس الريش على هذه الثلاثة.
الحنفية قالوا بطهارة ما خرج من الميتة من لبن وأنفحة وبيض رقيق القشرة أو غليظها ونحو ذلك مما كان طاهراً حال الحياة.
الحنابلة قالوا: بنجاسة جميع الخارج منها، إلا البيض الخارج من ميتة ما يؤكل إن تصلب قشره.
الشافعية قالوا: بنجاسة جميع الخارج منها إلا البيض إذا تصلب قشره، سواء كان من ميتة ما يؤكل لحمه أو غيره، فإنه طاهر.

محمد نعمان خالد

     دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

     14/يكم محرم الحرام1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / شہبازعلی صاحب