021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ورثہ میں سے بعض کا وصیت سے انکار اور بعض کا اقرار کرنا
73975میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ایک خاتون جو کہ بیوہ ہے اور اس کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے،اس کے والدین کا بھی انتقال ہوچکا ہے،ان کے شرعی ورثہ میں ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں،ان کی ملکیت میں موجود رقم اور زیور کس طرح تقسیم ہوگی،جبکہ وہ اپنی زندگی میں دو گواہان کی موجودگی میں زبانی طور پر غیر شرعی ورثہ کے لیے بھی اپنی وراثت میں سے زبانی حصہ بیان کرچکی ہے۔

دو گواہان میں ایک شرعی وارث یعنی مرحومہ کی بہن اور دوسرا ان ہی کا بیٹا ہے،جس کے پاس وہ بیوہ ہونے کے بعد سے رہائش پذیر تھیں،ان دونوں گواہان کی گواہی کو ایک شرعی وارث یعنی بھائی تسلیم کرتا ہے،جبکہ ایک شرعی وراث یعنی بہن اس کا انکار کرتی ہے۔

تنقیح :سائل سے معلوم ہوا کہ مرحومہ نے اپنے بھانجوں اور بھانجیوں کے لیے وصیت کی تھی اور وہ وصیت کل مال کے تہائی حصے سے زیادہ بن رہی ہے،لیکن اس وصیت کا کوئی تحریری  ثبوت موجود نہیں ہے،البتہ دو گواہ ہیں جن میں سے ایک خود مرحومہ کا بھانجا ہے اور دوسری ان کی سگی بہن ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ورثہ کے ذمے مرحومہ کی وصیت کو کل مال کے تہائی حصے تک پورا کرنا لازم ہے،تہائی مال سے زیادہ کے متعلق مرحومہ کی وصیت کو پورا کرنا ان پر لازم نہیں،البتہ اگر تمام ورثہ عاقل بالغ ہوں اور اپنی خوشی سے اسے پورا کردیں تو انہیں اختیار ہے۔

2۔اگر ورثہ میں سے کوئی وصیت کا انکار کرتا ہو تو پھر جو وصیت کا دعویدار ہو اس کے ذمے اپنی بات کو شرعی شہادت یعنی دو مرد گواہوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے ثابت کرنا لازم ہے،اگر اس کے پاس شرعی شہادت نہ ہو تو پھر انکار کرنے والے ورثہ کے ذمے اس طور پر قسم لازم ہوگی کہ اللہ کی قسم ہمیں نہیں معلوم کہ مرحومہ نے ان کے حق میں کوئی وصیت کی تھی۔

3۔والدہ کی گواہی اپنے بچوں کے حق میں شرعا معتبر نہیں ہے۔

چونکہ مذکورہ صورت میں بعض ورثہ وصیت کا انکار کررہے ہیں اور بعض اقرار کررہے ہیں،جبکہ وصیت پر کوئی شرعی شہادت موجود نہیں ہے،اس لیے جو ورثہ اقرار کررہے ہیں صرف ان کے حصے میں آنے والے مال کے تہائی حصے کو مرحومہ کی وصیت کے مطابق اس کے بھانجوں اور بھانجیوں میں تقسیم ہوگا،تہائی سے زیادہ میں مرحومہ کی وصیت پر عمل لازم نہیں ہے۔

اور جو بہن وصیت کا انکار کررہی ہے اس سے اس طرح سے قسم لی جائے گی کہ اللہ کی قسم! مجھے مرحومہ کے اپنے بھانجوں اور بھانجیوں سے متعلق مذکورہ وصیت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے،اگر وہ اس طرح قسم اٹھالیتی ہے تو اسے اس کا حصہ پورا دیا جائے گا اور اگر وہ قسم سے انکار کردے تو پھر اس کے حصے میں آنے والے مال کے تہائی حصے کو  بھی مرحومہ کی وصیت کے مطابق اس کے بھانجوں اور بھانجیوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

ورثہ کے حصوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

وفات کے وقت مرحومہ کی ملکیت میں موجود سونا،چاندی،نقدی،جائیداد یا ان کے علاوہ جو بھی چھوٹا بڑا سامان ان کی ملک میں تھا سب ان کا ترکہ ہے،جس میں سے آدھا ان کے بھائی کو ملے گا،جبکہ بقیہ آدھا ترکہ دونوں بہنوں میں برابر تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
"البحر الرائق "(7/ 80):
"(قوله والولد لأبويه وجديه وعكسه) أي لم تقبل شهادة الفرع لأصله والأصل لفرعه للحديث ولأن المنافع بين الأولاد والآباء متصلة ولهذا لا يجوز أداء الزكاة إليهم فتكون شهادة لنفسه من وجه".
"الدر المختار " (5/ 552):
"(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك (و) التحليف (على فعل غيره) يكون (على العلم) أي إنه لا يعلم أنه كذلك لعدم علمه بما فعل غيره ظاهرا".
"رد المحتار" (5/ 552):                                                                                                                                                                              
"يحلف في كل سبب لو أقر المدعى عليه لزمه، كما لو ادعى أنه أبوه أو ابنه أو زوجته أو مولاه، ولو ادعى أنه أخوه أو عمه أو نحوه لا يحلف إلا أن يدعي حقا في ذمته كالإرث بجهة فحينئذ يحلف، وإن نكل يقضى بالمال إن ثبت المال، ودعوى الوصية بثلث المال كدعوى الإرث على ما ذكرنا".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

20/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب