021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کے درمیان عدد طلاق میں اختلاف
73470طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

فون پر میاں بیوی میں تلخ کلامی ہوئی ، خاوند نے دو دفعہ طلاق دی اور اپنے موقف کی قسم بھی کھاتا ہے کہ میں نے دو دفع دی لیکن بیوی بھی قسم کھا کر کہتی ہے کہ اس نے تین بار دی ہے دونوں کے پاس کوئی گواہ موجود نہیں تو اس صورت میں کس کی بات مانی جائے اور عدت اور رجوع کا فتوی بھی بتا دیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق کے معاملے میں اختلاف کی صورت میں دیانت اور قضاء کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے، قضاءً مرد کا قول اور دیانتاً عورت کا قول معتبر ہوتا ہے، قضاءً کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر معاملہ عدالت میں پہنچ جائے اور عورت کے پاس اپنے دعوی پر گواہ نہ ہوں تو قاضی مرد سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا اور اس صورت میں خاوند اگر جھوٹا ہوا تو اس کا گناہ اسی پر ہو گا اور شرعاً یعنی "اللہ اور اس کے درمیان جو معاملہ ہے"اس کے لحاظ سے عورت اس کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ دیانتاًعورت کا قول معتبر ہونے کا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو طلاق کا پکا یقین ہو تو وہ اپنی ذات کے حق میں اسی پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے اور اس کے لیے خاوند کو اپنے اوپر (صحبت وغیرہ کے لیے)اختیار دینا جائز نہیں ہوتا۔کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے:"المرٲة کالقاضی" یعنی جس طرح قاضی ظاہری صورتِ حال (مدعی گواہ پیش کردے یا گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعیٰ علیہ قسم کھالے) کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے، اسی طرح عورت پربھی خاوند کے ظاہری الفاظ کے مطابق عمل کرنا لازم ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر کی بات درست ہو اور اس نے واقعۃً صرف دو دفعہ طلاق دی ہو تو وہ عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کرسکتا ہے۔ اور عورت کے لیے غلط بیانی کرنا جائز نہیں۔ لیکن اگر بیوی کو کسی شک وشبہ کے بغیر مکمل یقین ہے کہ شوہر نے اسے تین طلاقیں دی ہیں تو پھر اس کے لیے حکم یہ ہے کہ اب اس سے دور رہے، اور اپنے اوپر اسے بالکل قدرت نہ دے۔ چونکہ شوہر بھی دو طلاق کا اقرار کررہا ہے اس لیے اگر عدت کے اندر اندر شوہر نے قول یا فعل کے ذریعے رجوع نہیں کیا تو عدت ختم ہونے کے بعد وہ دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر شوہر نے عدت کے اندر اندر قول یا فعل کے ذریعے رجوع کرلیا تو پھر وہ قضاءً اس وقت تک دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی جب تک شوہر تین طلاق کا اقرار نہ کرے، یا عدالت شرعی طریقے (یعنی کہ عورت اپنے دعویٰ پر دو گواہ پیش کردے یا گواہ نہ ہونے کی صورت میں قاضی شوہر سے قسم کا مطالبہ کرے اور وہ قسم سے انکار کرلے) سے دونوں کے درمیان تفریق نہ کرادے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عورت اپنا مہر معاف کرکے یا روپیہ دے دلاکرخلع کے ذریعہ اس سے اپنی جان چھڑائے۔ لیکن اگر شوہر تین طلاق کا اقرار نہیں کرتا اور عدالت کے ذریعے بھی تفریق نہ ہوسکے اور شوہر مہر یا روپیہ کے بدلے خلع کے طور پر چھوڑنے کے لیے بھی تیار نہ ہو اور عورت کے لیے زیادہ عرصہ اس طرح رہنا ممکن نہ ہو تو دیانۃً اس کی بھی گنجائش ہے کہ عورت عدت کا زمانہ گزرنے کے بعد اس کی غیر موجودگی یا لاعلمی میں دوسرا نکاح کرے ، اور جب دوسرا شوہر طلاق دیدے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے پاس جائے اور اس سے یہ کہہ کر تجدیدِ نکاح کا مطالبہ کرے کہ مجھے چونکہ نکاح میں شبہ پیش آگیا ہے اس لیے میں دوبارہ عقد کرنا چاہتی ہوں۔ (ماخوذ از تبویب فتوی نمبر:61030)

حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2/ 218)
إذا قال أنت طالق طالق طالق، وقال إنما أردت به التكرار صدق ديانة لا قضاء فإن القاضي مأمور باتباع الظاهر والله يتولى السرائر والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو علمت به؛ لأنها لا تعلم إلا الظاهر وكل موضع كان القول فيه قوله إنما يصدق مع اليمين؛ لأنه أمين في الإخبار عما في ضميره والقول قوله مع يمينه.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 276)
ويدين في الوثاق، والقيد ويقع قضاء إلا أن يكون مكرها، والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه اهـ. ولا فرق في البائن بين الواحدة، والثلاث اهـ.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 62)
 ولو طلقها ثلاثا، وأنكر لها أن تتزوج بآخر، وتحلل نفسها سرا منه إذا غاب في سفر فإذا رجع التمست منه تجديد النكاح لشك خالج قلبها لا لإنكار الزوج النكاح، وقد ذكر في القنية خلافا فرقم للأصل بأنها إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد، وتتزوج بآخر لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة ثم رمز شمس الأئمة الأوزجندي، وقال قالوا هذا في القضاء، ولها ذلك ديانة، وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد، وحلف أنه لم يفعل، وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه، ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضا قال يعني البديع.
والحاصل أنه جواب شمس الإسلام الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل انتهى، وفي الفتاوى السراجية إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها، وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج، ولم يقيده بالديانة، والله أعلم.

 محمد عبدالرحمن ناصر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

17/11/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبدالرحمن ناصر بن شبیر احمد ناصر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب