73990 | نماز کا بیان | مسافر کی نماز کابیان |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
بندہ ناچیزکے والدین کا تعلق ایبٹ آبادکے ایک گاؤں کریم آباد سے تھا اورمیری ولادت بھی وہی ہوئی تھی، لیکن پھروالد محترم 50سال پہلے گاؤں سے اپنے اہل وعیال اورسامان سمیت لاہورمنتقل ہوگئے تھے اوروہیں مستقل طورپر گھر،کاروبارایڈجسٹ کرکے مستقل رہائش اختیارکرلی تھی پھر جب میری لاہورشادی ہوئی تو ایک مہینہ کے بعد میں اپنے اہل وعیال سمیت کراچی میں منتقل ہوگیا تھا،اب کراچی میں میرا اپنا ذاتی گھر اورکاروبارہے،نیز اپنے اہل وعیال سمیت کراچی میں ہی عمرگزارنے کا ارادہ ہے اور20سال سے میں کراچی میں ہی رہائش پذیرہوں اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ لاہوراور ایبٹ آباد جہاں میرے والد محترم کی جائیداد اور مکان بھی ہے (جوکہ بہن بھائیوں میں تقسیم نہیں ہوئی) اورلاہورمیں میرا سسرال بھی ہے اب ان دونوں شہروں سے میرا تعلق بس اتنا ہے کہ غمی اورخوشی کے موقعے پر آنا جانا لگارہتاہے،پھر ذہن میں یہ بھی ہے کہ خدانخوستہ اگرکراچی میں کاروباری معاملات میں اونچ نیچ ہوگئی اورکاروباری اعتبارسے کراچی میں پاؤں نہ جما سکا تو پھرواپس لاہورچلاجاؤگا، تو اب اس صورتِ حال میں ان دونوں شہروں (ایبٹ آباد اورلاہور) میں جب کبھی میرا جانا ہوگا تو کیا میں فرض نماز پوری پڑھوگا یاقصرکے ساتھ پڑھوں گا؟جواب دیکرعنایت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
١١۔ان تین مقامات میں سےکراچی جہاں اب آپ اپنے اہل وعیال سمیت رہائش پذیر ہیں اورگھر اورکاروباربھی آپ کا وہی ہےاوروہی عمر گزارنے کا ارادہ بھی ہےجیسے کہ آپ نے لکھا تو کراچی تو بہرحال آپ کا وطنِ اصلی ہے ،جہاں آپ پوری نمازپڑھیں گے ۔
جہاں تک ایبٹ آباد کی بات ہے اگرچہ آپ کی پیدائش وہاں ہوئی ہےمگراب چونکہ آپ اس کوبالکلیہ ترک کرچکے ہیں اوروہاں واپس جانے کا بھی ارادہ نہیں جیسے کہ آپ نےفون پریہ باتیں بتائی،لہذا اب وہ آپ کا وطنِ اصلی نہیں رہا، صرف والد کی جائیدادکےوہاں ہونے سے وہ آپ کےلیےوطن نہیں رہے گا، ویسے بھی آپ بالغ ہونے کی وجہ سے والدکے تابع نہیں،لہذا اگرآپ ایبٹ آباد جائیں گےتو مسافرہوں گے اورقصر کی نماز پڑھیں گےالا یہ کہ آپ وہاں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کے ارادے سے جائیں ۔
جہاں تک لاہورکی بات ہے تو وہ ایک مرتبہ آپ کا وطن اصلی بن چکا تھا، اس لیے کہ آپ ایک لمبے عرصے تک وہاں مستقل رہنے کی نیت سے رہیں اور اس وقت کسی اورمثلاًکراچی وغیرہ کا ارادہ نہیں تھا اورآپ کی شادی بھی وہی ہوئی ،شادی کے بعد بھی ایک مہینہ تک آپ وہاں رہیں جیسے کہ یہ باتیں آپ نے فون پر بتائی،لہذا اگرچہ اب آپ اپنے وہل وعیال کوکراچی مستقل رہائش کی نیت سے منتقل کرچکے ہیں،مگرچونکہ لاہور کو بالکلیہ آپ نےترک نہیں کیا جیسے کہ آپ نے لکھاکہ اگرکاروباری معاملات میں اونچ نیچ ہوئی تو واپس لاہو چلا جاؤں گا، لہذالاہوربستورآپ کا وطنِ اصلی رہا، لہذا جتنے بھی وقت کےلیے آپ لاہور جائیں گے وہاں مقیم شمارہوں گے اورپوری نمازپڑھیں گے۔
حوالہ جات
وفی الدر المختار - (2 / 131)
( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن ( الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل مننصف شهر لعدم فائدته
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 131)
مطلب في الوطن الأصلي ووطن الإقامة(قوله الوطن الأصلي) ويسمى بالأهلي ووطن الفطرة والقرار ح عن القهستاني.(قوله أو تأهله) أي تزوجه. قال في شرح المنية: ولو تزوج المسافر ببلد ولم ينو الإقامة به فقيل لا يصير مقيما، وقيل يصير مقيما؛ وهو الأوجه ولو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار كما لو تأهل ببلدة واستقرت سكنا له وليس له فيها دار وقيل تبقى. اهـ.(قوله أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية… (قوله ويبطل وطن الإقامة) يسمى أيضا الوطن المستعار والحادث وهو ما خرج إليه بنية إقامة نصف شهر سواء كان بينه وبين الأصلي مسيرة السفر أو لا.
الدر المختار (2 / 125)
(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي في نصف شهر (أو) نوى (فيه لكن في غير صالح) أو كنحو جزيرة أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى)
البحر الرائق - (2 / 147)
وفي المحيط ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له ، وقيل تبقى وطنا له لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة یبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر وفي المجتبى نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر
بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية - (1 / 103)
وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها.
(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يوما أو أكثر.
الفتاوى الهندية (1/ 142):
وطن سفر وقد سمي وطن إقامة وهو البلد الذي ينوي المسافر الإقامة فيه خمسة عشر يوما أو أكثر ووطن سكنى وهو البلد الذي ينوي الإقامة فيه دون خمسة عشر يوما
رد المحتار - (ج 5 / ص 498)
( قوله حتى يدخل موضع مقامه ) أي الذي فارق بيوته سواء دخله بنية الاجتياز أو دخله لقضاء حاجة لأن مصره متعين للإقامة فلا يحتاج إلى نية جوهرة ، ودخل في موضع المقام ما ألحق به كالربض كما أفاده القهستاني ( قوله إن سار إلخ ) قيد لقوله حتى يدخل إي إنما يدوم على القصر إلى الدخول إن سار ثلاثة أيام .
الفتاوى الهندية - (ج 1 / ص 139)
ولا يصير مسافرا بالنية حتى يخرج ويصير مقيما بمجرد النية كذا في محيط السرخسي………….
وفی الشامیۃ (۱۳۱/۲):
( قولہ الوطن الأصلی) ویسمٰی بالأھلی ووطن الفطرۃ والقرار ح عن القھستانی (قولہ أوتأھلہ) أی تزوجہ قال فی شرح المنیۃ: ولو تزوج المسافر ببلدولم ینوالأقامۃ بہ فقیل لایصیر مقیما وقیل یصیر مقیما،وھو الأوجہ ولو کان لہ أھل ببلدتین فأیتھما دخلھا صارمقیما، فأن ماتت زوجتہ فی إحداھما وبقی لہ فیہا دور وعقار قیل لایبقی وطنالہ اذ المعتبر الأھل دون الدار کمالو تاھل ببلدۃ واستقرت سکنالہ ولیس لہ فیھا دار… وقیل تبقی (قولہ أو توطنہ) أی عزم علی القرار فیہ و عدم الارتحال وإن لم یتأھل، فلو کان لہ أبوان ببلد غیر مولدہ وھو بالغ ولم یتأھل بہ فلیس ذلک وطنالہ الااذا عزم علی القرار فیہ وترک الوطن الذی کان لہ قبلہ.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
21/1/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |