021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چھوٹے بیٹے کو تنگدست ہونے کی وجہ سے زیاہ حصہ دینا
73974ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرے چار بیٹے،چار بیٹیاں اور ایک بیوی ہے،سارے بیٹے اور بیٹیاں شادی شدہ ہیں،اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں،البتہ میرا چھوٹا بیٹا میرے ساتھ رہتا ہے،میری کچھ جائیداد شہر میں ہےاور کچھ جائیداد شہر سے دور گاؤں میں ہے،شہر والی جائیداد گاؤں والی جائیداد سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔

اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ میرا چھوٹا بیٹا مالی اعتبار سے دوسروں بیٹوں سے کچھ کمزور ہے،میں اپنی شہر والی ساری جائیداد اپنے چھوٹے بیٹے کو محض اس وجہ سے دینا چاہتا ہوں کہ وہ مالی اعتبار سے بہتر ہوجائے اور گاؤں والی جائیداد دوسرے بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم کروں گا،لیکن میں میری دیگر اولاد اس پر راضی نہیں کہ زیادہ قیمت والی جائیداد چھوٹے بیٹے کو ملے اور کم قیمت والی جائیداد انہیں ملے۔

چونکہ میں خود جائیداد کا مالک ہوں،کیا مجھے شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے بڑے بیٹوں اور بیٹیوں کی رضامندی کے بغیر شہر والی ساری جائیداد چھوٹے بیٹے کو دے دوں اور گاؤں والی جائیداد دوسرے بیٹے اور بیٹیوں میں تقسیم کردوں، میرے لیے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور ایسا کرنے کی وجہ سے میں گناہ گارہوں گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرنا ہبہ کے حکم میں ہے اور کسی معقول وجہ مثلا اولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہوناوغیرہ کی بناء پر اولاد کو ہبہ کرنے میں کمی بیشی کی گنجائش ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں اگر چھوٹا بیٹا دوسروں کی بہ نسبت واقعی زیادہ تنگدست اور ضرورت مند ہے تو اسے شہر والی جائیداد دینے میں حرج نہیں ہوگا،لیکن بہتر یہ ہے کہ اس حوالے سے آپ اپنی دوسری اولاد کو بھی اعتماد میں لے لیں،تاکہ آپ کا یہ اقدام ان کے درمیان بغض،کینہ اور حسد کا سبب نہ بنے۔

واضح رہے کہ چونکہ زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ ہے،اس لیے اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ والد اولاد میں سے جس کو جو مال دے وہ اس کے نام کرکے باقاعدہ اس کے قبضے میں بھی دے،کیونکہ اگر صرف نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تو ایسا ہبہ پورانہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

یہ بھی واضح ہو کہ زندگی میں کسی وارث کو کچھ مال دے کر یہ کہنے سے کہ اب میراث میں تمہارا کوئی حصہ باقی نہیں رہا،اس وارث کا حصہ میراث میں سے ختم نہیں ہوتا۔

حوالہ جات
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق ": (ج 20 / ص 110) :
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم، كذا في المحيط.
 وفي فتاوى وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة, ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث, هذا خير من تركه؛ لأن فيه إعانة على المعصية، ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته".
"الدر المختار للحصفكي ": (ج 5 / ص 265) :
وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".
"البزازیہ علی ھامش الہندیۃ"(۶/237):
"الافضل فی ھبۃ الابن والبنت التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھوالمختار،ولووھب جمیع مالہ من ابنہ جاز ،وھو آثم ،نص علیہ محمد ،ولو خص بعض اولادہ لزیادۃ رشدہ لاباس بہ ،وان کانا سواءلایفعلہ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

21/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب