021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تجھے طلاق ہے اورمجھے تمہاری بیٹی نہیں چاہیے سے طلاق کا حکم
73985طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

اس استفتاء کے ساتھ ایک خط منسلک ہے جس میں خاوند کا یہ جملہ بھی ہے ’’میں اپنی بیوی ساجدہ کو.........طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتاہوں‘‘یہ خط شوہرنے ثالث کےہاتھ اپنی بیوی کو بھیجاہے،لیکن شوہرنےاس کو یہ ہدایت دی کہ یہ خط میری بیوی کو دینے سے پہلے اس کی رضامندی پوچھ لیناکہ آیا وہ طلاق لیناچاہتی ہے یانہیں؟اگروہ طلاق لینا چاہتی ہے تو یہ خط اس کے حوالے کردو (یہ خاوند نےا س لیے کیا کہ اس کو شبہہ ہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ اس کی بیوی رہنا چاہتی ہے،لیکن اس کے بھائیوں میں سے کچھ بھائی بہن کی طلاق چاہتے ہیں) ثالث نے وہ خط غلطی سے بیوی کےاس بھائی کے حوالے کیا جو چاہتا تھا کہ میری بہن کو طلاق ہو،اس نے دوسرے بھائی کو دیا کہ ان کے شوہرکی طرف سے طلاق نامہ آچکاہے،لیکن وہ دوسر بھائی جس کو اب خط ملا دل سے نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بہن کو طلاق ہو، لہذا اس نے اس خط کے بارے میں بھائی کے بجائے اپنی والدہ سے مشورہ کیا اورپھر بہن کو بتایا تو اس پر بہن نے کہاکہ نہ تو میں نے یہ خط پڑھنا ہے اورنہ ہی میں طلاق لینا چاہتی ہوں،توکیا اس صورت میں مذکورہ لڑکی پر طلاق واقع ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

     سوال کے ساتھ منسلک طلاق نامہ  اگر شوہر نے خود لکھا ہے یا خود کسی سے لکھوایا ہے اور یہ طلاق نامہ اصل کے مطابق ہے تو  اس کی رو سے طلاق نامہ میں درج طلاق کے الفاظ’’میں اپنی بیوی ساجدہ کو.........طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتاہوں‘‘سے مسماۃ ساجدہ  بنت حاجی محمود بھٹو پریہ الفاظ لکھتے ہی  تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور نکاح ختم ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے، اب رجوع نہیں ہو سکتا اور فی الحال دوبارہ دونوں کا آپس میں نکاح بھی نہیں ہو سکتا، البتہ دوبارہ آپس میں نکاح کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ مسماۃ ساجدہ بنت حاجی محمود کا کسی دوسرے مرد سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح  ہو اور ہمبستری کے بعدکسی وقت وہ اسے طلاق دے دے یا ہمبستری کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے۔ 

حوالہ جات
قاللہ تعالی :
{ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ }
وفی احکام القرآن للشيخ ظفر احمد العثماني(رح):(۱/۵۰4)
﴿قوله تعالي: فان طلقها فلا تحل له حتي تنکح زوجا غيره﴾ اي انه اذا طلق الرجل امرأته طلقة ثالثة بعد ما ارسل عليها الطلاق مرتين فانها تحرم عليه حتي تنکح زوجا غيره اي حتي يطأها زوج اخر في نکاح صحيح.
فی سنن ابن ماجة (ج 2 / ص 152)باب من طلق ثلاثا في مجلس واحد 2024
حدثنا محمد بن رمح . أنبأنا الليث بن سعد ، عن إسحاق بن أبى فروة ،عن أبى الزناد ، عن عامر الشعبى  قال : قلت لفاطمة بنت قيس :حدثينى عن طلاقك . قالت : طلقني زوجي ثلاثا ، وهو خارج إلى اليمن فأجاز ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم .
وفي صحيح البخاري (٢/٧٩١)
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنهاأَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ قَالَ لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ.
وفي الهداية (٢/٤٠٩)
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها.
وفي الشامية(٣/٢٤٦)
قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة..... وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته ........وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 9 / ص 149)
 غير الأخرس يقع طلاقه بكتابته إذا كان مستبينا لا ما لا يستبين فإن كان على وجه الرسم لا يحتاج إلى النية ولا يصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط ورسمها أن يكتب بسم الله الرحمن الرحيم أما بعد إذا وصل إليك كتابي فأنت طالق فإن كان معلقا بالإتيان إليها لا يقع إلا به ، وإن لم يكن معلقا وقع عقيب الكتابة ، وإن علقه بالمجيء إليها فوصل إلى أبيها مزقه ولم يدفعه إليها فإن كان متصرفا في أمورها وقع وإلا لا ، وإن أخبرها ما لم يدفع إليها الكتاب الممزق ولو كتب إليها إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في كتاب آخر أو غيره فبلغا إليها تطلق تطليقتين ولا يدين في القضاء.
المبسوط - (ج 7 / ص 479)
فإن كان كتب : امرأته طالق فهي طالق سواء بعث الكتاب إليها ، أو لم يبعث ، وإن كان المكتوب : إذا وصل إليك كتابي هذا فأنت طالق ، فما لم يصل إليها لا يقع الطلاق.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 22/1/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب