021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قربانی کی نیت سے خریدا گیا جانور تبدیل کرنا
73992قربانی کا بیانقربانی کے متفرق مسائل

سوال

قربانی کی نیت سے خریدے گئے جانور کو ایام اضحیہ سے قبل بیچ کر اس سے کم قیمت کا جانور لے لیا قربانی کے لیے تو کیا قربانی درست ہوگی؟ بقیہ رقم کا کیا حکم ہوگا؟

اس مسئلے میں غنی اور فقیر کا حکم یکساں ہوگا یا الگ الگ اور جانور متعین ہوا یا مالیت یا کچھ بھی نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جانور گھر کا پالتو ہو یا خریدنے کے بعد قربانی کی نیت کی ہو تو اس کا بدلنا غنی اور فقیر دونوں کے لیے جائز ہے، اور اگر قربانی کی نیت سے ہی خریدا ہو تو اس میں تین روایات ہیں:

1.     غنی اور فقیر دونوں کے لیے بنیت اضحیہ جانور خریدنے سے وہ قربانی کے لیے متعین نہیں ہوتا۔ لہٰذا دونوں کے لیے بدلنا جائز ہے۔

2.     دونوں کے لیے متعین ہوجاتا ہے۔ غنی پر بقدر مالیت اور فقیر پر اسی جانور کی قربانی واجب ہے۔ بقدر مالیت کا مطلب یہ ہے کہ غنی پر بعینہٖ اسی جانور کا ذبح کرنا تو واجب نہیں مگر اس جانور کی مالیت سے وجوب متعلق ہوگیا۔ لہٰذا اسی کو ذبح کرے یا اسی کی مالیت کا کوئی دوسرا جانور ذبح کرے۔

اس روایت کے مطابق غنی کے لیے جانور بدلنا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور بدلنا مکروہ تنزیہی ہے۔ لیکن اگر کسی نے بدل کر کوئی دوسرا جانور بطور اضحیہ ذبح کردیا تو پہلے کو ذبح کرنا ضروری نہیں۔ اس کو ویسے ہی چھوڑدینا بلاکراہت جائز ہے۔

یہ دونوں قول ظاہر الروایۃ ہیں۔ پہلے قول میں وسعت او رآسانی زیادہ ہے اور دوسرا قول احتیاط کے مطابق  اور مشہورہے۔

3.     غنی کے لیے بنیت اضحیہ خریدنے سے جانور قربانی کے لیے متعین نہیں ہوتا، فقیر کے لیے متعین ہوجاتا ہے، لہٰذا غنی کے لیے اس جانور کا بدلنا مطلقاً جائز ہے اور فقیر کے لیے مطلقاً ناجائز ہے۔

مذکورہ بالا اقوال کے مطابق جن صورتوں میں جانور متعین ہو جاتا ہے ان میں اگر ادنیٰ جانور سے تبدیل کیا تو جتنی قیمت پہلے جانورکی زیادہ تھی اتنی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔

حوالہ جات
ولو اشترى شاة للأضحية، ثم باعها واشترى أخرى في أيام النحر فهذا على وجوه ثلاثة. (الأول) : إذا اشترى شاة ينوي بها الأضحية. (والثاني) : أن يشتري بغير نية الأضحية، ثم نوى الأضحية. (والثالث) : أن يشتري بغير نية الأضحية، ثم يوجب بلسانه أن يضحي بها فيقول: لله علي أن أضحي بها عامنا هذا، ففي الوجه الأول في ظاهر الرواية لا تصير أضحية ما لم يوجبها بلسانه، وعن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -: أنه تصير أضحية بمجرد النية كما لو أوجبها بلسانه وبه أخذ أبو يوسف - رحمه الله تعالى - وبعض المتأخرين.
وعن محمد - رحمه الله تعالى - في المنتقى: إذا اشترى شاة ليضحي بها وأضمر نية التضحية عند الشراء تصير أضحية كما نوى. فإن سافر قبل أيام النحر باعها وسقطت عنه الأضحية بالمسافرة، وأما الثاني إذا اشترى شاة بغير نية الأضحية، ثم نوى الأضحية بعد الشراء لم يذكر هذا في ظاهر الرواية، وروى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنها لا تصير أضحية حتى لو باعها يجوز بيعها وبه نأخذ، فأما إذا اشترى شاة، ثم أوجبها أضحية بلسانه وهو الوجه الثالث تصير أضحية في قولهم، كذا في فتاوى قاضي خان.
۔۔۔ ولو باع الأولى بعشرين فزادت الأولى عند المشتري فصارت تساوي ثلاثين على قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - بيع الأولى جائز، فكان عليه أن يتصدق بحصة زيادة حدثت عند المشتري، وعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - بيع الأولى باطل فتؤخذ الأولى من المشتري، كذا في التتارخانية.
(الفتاوي الهندية، 5/294، ط: دار الفكر)
 
و بالشراء بنية الأضحية إن كان المشتري غنيا لا يجب عليه باتفاق الروايات حتى لو باعها و اشترى بثمنها أخرى فالثانية دون الأولى جاز و لايجب عليه شيء. فإن كان المشتري فقيرا قال في شرح الشافي: من اشترى شاة ليضحي بها تعينت لها بالنية عند الطحاوي. قال: و مذهب الجمهور أنها لا يصير لها إلا أن يقول: علي أن أضحي بها لأن نفس النية غير موجبة. و هكذا ذكر شمس الأئمة الحلواني ؒ. و ذكر الإمام خواهر زاده ؒ في ظاهر الرواية عن أصحابنا رحمهم الله: تصير واجبة. و هكذا ذكر الطحاوي ؒ. و في الزيادات في كتاب الهبة: رجل اشترى شاة فأوجبها أضحية وجبت عليه، موسرا كان أو معسرا۔۔۔.
 (خلاصة الفتاوى، 4/319، ط: مکتبہ رشیدیہ)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

23/ محرم الحرام 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب