021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹےکی وفات کےبعدوالدکی میراث میں سے اس کے حصے میں آنے والے مال کی تقسیم
73982میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

محمد عتیق مجھ سے چھوٹا بھائی تھا جو کہ والد صاحب کے بعد فوت ہوا ہے،اس کے چھ بچے ہیں،تین لڑکے اور تین لڑکیاں،اس کے حوالے سے یہ معلوم کرنا ہے کہ محمد عتیق اپنی بیگم کو اپنی زندگی میں طلاق دے چکا تھا اور اس کے سابقہ بیگم دوسری شادی کرچکی ہے،مگر محمد عتیق کے بچوں کا اپنی ماں سے کوئی خاص واسطہ نہیں ہے،گھریلو ناچاقی کی وجہ سے محمد عتیق کا صرف ایک چھوٹا بیٹا اس کے ساتھ رہا کرتا تھا،باقی اولاد مرنے کے وقت بھی اس کے ساتھ نہیں تھی اور اس وقت محمد عتیق کے تینوں لڑکے میرے مکان میں رہائش پذیر ہیں،دولڑکے اور دو لڑکیاں شادی شدہ ہیں،جبکہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی غیر شادی شدہ ہیں،ان کے حصے کے بارے میں بھی راہنمائی فرمائیں۔

تنقیح:سائل سے معلوم ہوا کہ محمد عتیق کے انتقال کے وقت اس کی بیوی کی عدت بھی گزرچکی تھی اور وہ کسی اور سے شادی بھی کرچکی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ محمد عتیق والد کے انتقال کے وقت زندہ تھا،اس لیے مرحوم والد کی میراث میں اس کا حصہ ہوگا جو اس کے انتقال کے بعد اب اس کی وفات کے وقت موجود اس کے ورثہ میں تقسیم ہوگا،لیکن محمد عتیق کی بیوی کو اس کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا،کیونکہ انتقال سے پہلے ہی وہ اسے طلاق دے چکا تھا۔

مرحوم والد کی میراث میں سے محمد عتیق کے حصے میں جو پچیس فیصد آئے گا اس میں٪555ء5 اس کے ہر بیٹے کو،جبکہ ٪777ء2 اس کی ہر بیٹی کو ملے گا۔

نیز والد صاحب کی میراث میں سے ملنے والے مال کے علاوہ اگر وفات کے وقت محمد عتیق کی ملکیت میں سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت،جائیداد یا ان کے علاوہ کوئی چھوٹا بڑا سامان ہو تو اسے بھی ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے،جس میں سے ٪222ء22 ان کے ہر بیٹے کو،جبکہ٪111ء11 ہر بیٹی کو ملے گا۔   

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 462):
" قال الخجندي: الرجل إذا طلق امرأته طلاقا رجعيا في حال صحته أو في حال مرضه برضاها أو بغير رضاها ثم مات وهي في العدة فإنهما يتوارثان بالإجماع وكذا إذا كانت المرأة كتابية أو مملوكة وقت الطلاق فأسلمت في العدة أو أعتقت في العدة فإنها ترث كذا في السراج الوهاج.
ولو طلقها طلاقا بائنا أو ثلاثا ثم مات وهي في العدة فكذلك عندنا ترث، ولو انقضت عدتها ثم مات لم ترث وهذا إذا طلقها من غير سؤالها فأما إذا طلقها بسؤالها فلا ميراث لها كذا في المحيط".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

23/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب