021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈیری کےمشترکہ کاروبارمیں باہمی رضامندی سےذاتی ضرورت کےلیےدودھ لینا
74001شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

سوال:کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ ایک دودھ ڈیری کےکام میں تین بھائی سرمایہ کےحساب سےمالک ہیں،نعیم کاسرمایہ 47.50فیصدہے،حسن کا47.50فیصدہے،جبکہ منیب کاسرمایہ 5فیصدہے،اورطےشدہ نفع کاتناسب بھی یہی ہے،تینوں بھائیوں نےباہمی رضامندی سےیہ طےکیاہواہےکہ ہربھائی اپنےذاتی گھریلواستعمال کےلیےضرورت کےمطابق ڈیری سےدودھ لےسکتاہے،(جس کوجتنی ضرورت ہولےجاتاہےاس کاکوئی حساب نہیں لکھاجاتا)گزشتہ لاک ڈاؤن میں کاروباری مشکلات کی وجہ سےاپنےدوبھتیجوں محمداسامہ اورعبداللہ سےکاروبارچلانےکےلیےایک کروڑروپیہ مضاربت پر15فیصدطےشدہ نفع پرنعیم اورحسین نےلیا،اورکل سالانہ نفع 15فیصدمقررکردیا۔

اب سوال یہ ہےکہ تینوں بھائی باہمی رضامندی سےڈیری فارم سےاپنی مرضی سےضرورت کےمطابق دودھ کااستعمال کرسکتےہیں؟

مضاربت پرپیسےدینےوالوں کااس میں کوئی نقصان تونہیں؟اوریہ جائزبھی ہےیانہیں؟اگرجائزنہیں توکیسےجائزہوسکتاہے؟

تنقیح:بھتیجےجنہوں نےایک کروڑروپیہ بطوررب  المال کےدیا،ان کےساتھ یہ طےہواتھاکہ ایک بھتیجےکوکل نفع کا 12فیصدملےگا،اوردوسرےکو3فیصد،اس طرح بھتیجوں کےلیےسالانہ کل نفع 15فیصدمقررہوا۔

نفع کی تقیسم کاطریقہ یہ ہےکہ کل نفع کا5فیصد(منیب بھائی)کودیاجاتاہے،اس کےبعد 15فیصدبھتیجوں کودیاجاتاہے،اس کےبعدبقیہ نفع(80فیصد)دوبھائی نعیم اورحسین آپس میں تقسیم کرتےہیں۔

بھتیجےبھی ہماری دکان میں بطورملازمت کام کرتےہیں،اس کی الگ سےاجرت دی جاتی ہے۔

مضاربت کامعاملہ کرنےکےبعدجس طرح تینوں شریک ذاتی ضرورت کےلیےدودھ لیتےہیں،اس طرح بھتیجےجوکہ رب المال ہیں،ان کوبھی دودھ لینےکی اجازت دی ہوئی ہے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ڈیری کےکاروبارمیں شرکت کی مذکورہ بالاصورت اورنفع کی تقسیم کامذکورہ طریقہ شرعادرست ہے،بشرطیکہ ہرایک کےنفع کاتناسب باہمی رضامندی سےطےکیاجائے۔

جہاں تک ذاتی ضرورت کےلیےدودھ لینےکامسئلہ ہےتوواضح رہےکہ شرکت میں ایسی شرط لگانا،جس سےبعدمیں نفع کی تقسیم میں جہالت ہو(جس کی وجہ سےلڑائی جھگڑےکاخطرہ ہو)جائزنہیں،ایسی شرط کی وجہ سےشرکت فاسدہوجاتی ہے،اس لیےموجودہ صورت میں بھی ہرایک کی ضرورت کےمطابق دودھ لینےکی شرط درست نہیں،ہاں باہمی رضامندی سےہرشریک کےلیےایک مقدارمتعین کردی جائےتوپھریہ شرکت درست ہوجائےگی۔

مثلاموجودہ مسئلہ میں یہ شرط لگائی جائےکہ ہرشریک کوروزانہ تین،چارکلو(یاباہمی رضامندی سےمتعین مقدارمیں)دودھ لینےکی اجازت ہوگی،اس سےزیادہ کےاس سےپیسےلیےجائیں گےتوپھریہ شرکت درست ہوجائےگی۔

حوالہ جات
"العناية شرح الهداية "12 / 131:
وكل شرط يوجب جهالة في الربح يفسده لاختلال مقصوده ، وغير ذلك من الشروط الفاسدة لا يفسدها ، ويبطل الشرط كاشتراط الوضيعة على المضارب ۔
"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق" 14 / 86:
 ثم الشرط الفاسد على وجهين إن أدى إلى جهالة الربح فسدت المضاربة ؛ لأنه المقصود ، وإن لم يؤد صحت وبطل الشرط مثل أن يشرطا الوضيعة على المضاربة۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

24/محرم الحرام 1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب