021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت کے طورپر دی گئی رقم کی زکوة کا حکم
73998زکوة کابیانسامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان

سوال

میں نے ایک ادارے کے ساتھ مشارکہ اور مضاربہ پر کچھ رقم کاروبار کے لیے دی ہے،کیونکہ میں کاروبار نہیں کرسکتا،میرا ان سے معاہدہ ہے کہ جو بھی منافع ہوگا،اس میں سے وہ میرا حصہ نکال کر مجھے دے دیا کریں گے،اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ رقم جو میں نے کاروبار میں لگائی ہے،کیا میں اس کی زکوة دوں گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مضاربت کے طور پر دی گئی رقم کی زکوة مالک کے ذمے لازم ہوتی ہے،اس لیے جو رقم آپ نے مضاربت کے طور پر دی ہے اس کی زکوة آپ کے ذمے لازم ہے۔

حوالہ جات
"الهداية "(1/ 105):
" ولو مر بمائتي درهم بضاعة لم يعشرها " لأنه غير مأذون بأداء زكاته. قال: " وكذا المضاربة " يعني إذا مر المضارب به على العاشر.
وكان أبو حنيفة رحمه الله يقول: أولا يعشرها لقوة حق المضارب حتى لا يملك رب المال نهيه عن التصرف فيه بعد ما صار عروضا فنزل منزلة المالك ثم رجع إلى ما ذكرنا في الكتاب وهو قولهما لأنه ليس بمالك ولا نائب عنه في أداء الزكاة إلا أن يكون في المال ربح يبلغ نصيبه نصابا فيؤخذ منه لأنه مالك له " .
قال العلامة ابن الھمام رحمہ اللہ:" (قوله: لقوة حق المضارب) حتى كان له أن يبيع من المال فصار كالمالك فكان حضوره كحضور المالك.
 (قوله: ولا نائب عنه) والزكاة تستدعي نية من عليه وهو كالملك في التصرف الاسترباحي لا في أداء الزكاة، بخلاف حصة المضارب لأنه يملكها فيؤخذ منه عنها".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

23/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب