021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حالت غضب میں "تم فارغ ہو میری طرف سے” بولنے کا حکم
73997طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میری گزارش یہ ہے کہ میرے شوہر محمد اسد صاحب جو کہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ میں نے"تم فارغ میری طرف سے" یہ الفاظ طلاق کی نیت سے ادا نہیں کیے تھے، اس بات پر اسد صاحب کا حلف نامہ بھی انہوں نے آپ کے ادارے میں جمع کروایا۔  

جبکہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ انھوں نے جب یہ الفاظ کہے تو اس واقعہ سے کچھ منٹ پہلے ہی وہ اپنے والد صاحب کو فون پر یہ کہہ چکے تھے کہ میں “طلاق/ ڈیوورس” دینے لگا ہوں اور اس بات کی ان کی وائس ریکارڈنگ بھی موجود ہے اور گواہ بھی ہیں اور اس ٹیلیفونک گفتگو کے بعد مزید جھگڑا بڑھتا ہی چلا گیا،پھر جب اسد صاحب نے یہ الفاظ کہے کہ “تم فارغ ہو میری طرف سے” تو میں نے ان کی اس بات پر  ان سے کہا کہ ان الفاظ سے ایک طلاق ہو جاتی ہے تو اسد صاحب نے کہا کہ نہیں ہوتی، میں نے پھر سے اپنی بات کو دہرایا کہ ہو جاتی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ “ہو گئی ہے نا ،چل لیپ ٹوپ دے” یہاں تک ایک واقعہ مکمل ہوا۔

اس سے پہلے کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۵ رمضان المبارک کو میں کراچی اپنے میکے سے ان کے ساتھ اپنے سسرال لاہور گئی، لاہور پہنچنے کے بعد ۲۸ رمضان المبارک کی رات سحری سے کچھ وقت پہلے گھر آئے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ بندہ بتا کر چلا جاتا ہے، میری یہ بات ان کو بہت بری لگی اور وہ شدید غصے میں آ گئے اور مجھے گالی دی، جس پر  مجھے بھی غصہ آیا اور میں نے مزید شکوہ کیا تو انھوں نے بجائے بات کو سمجھانے کے ہمیشہ کی طرح مجھے زدوکوب کرنے لگے اور مجھے کہا کہ چلو اپنا سامان سمیٹو اور جاؤ اپنی ماں کے گھر اور اس وقت ایک پرچہ تحریر کیا جس کی تحریر یہ تھی کہ "میں اسد جو کہ حمیرا کو اپنی خوشی اور رضامندی سے چھوڑنے کا سوچ چکا ہوں کیوں کہ میں نے اسکی زندگی تنگ کی ہوئی ہے اور میں فیصلہ کرتا ہوں اور اگر کسی کو مسئلہ ہو تو میرے سے رابطہ کر لے"۔ مہربانی۔

یہ تحریر لکھنے کے بعد مجھ سے اس تحریر پر دستخط کرنے کا کہا ان کے بہت زیادہ اصرار کے باوجود میں نے اس پر دستخط نہیں کئے تو انھوں نے اس تحریر پر اپنے دستخط کئے اور اپنا فون نمبر لکھا اور مجھے کہا کہ تمھاری ٹکٹ کروا دی ہے،اپنا سامان سمیٹو اور یہ پیپر لے کر کراچی جاؤ اور اپنے ماں باپ کو دکھا دو۔

اور اسی دوران مجھے یہ بھی کہا کہ میں دو ماہ پہلے سے ہی تمھیں چھوڑنے کا فیصلہ کر چکا ہوں،یہ دوسرا واقعہ مکمل ہوا۔

پھر ہم غالبا ۲۹ رمضان کی صبح عید گزارنے کے لئے ان کے ددھیال شکر گڑھ چلے گئےاور ایک ہفتہ وہاں ٹہرے،اس درمیان بھی ہماری کسی نہ کسی بات پر لڑائی چلتی ہی رہی اور ان کی طرف سے گالی دینا، ذہنی ٹارچر کرنا اور زدوکوب کرنا مسلسل جاری رہا،بیشک کہ لڑائی کے بعد انکا رویہ میرے ساتھ اچھا بھی ہو جاتا تھا اور ان شکر گڑھ کے ایام میں ہی لڑائی کے درمیان ایک مرتبہ اسد صاحب نے یہ بھی کہا کہ "تمھیں اب طلاق ہی ہوگی اور چل اپنا سامان سمیٹ اور لاہور چل،وہاں سے تجھے تیرے ماں باپ کے پاس ہی بھیجوں گا"،یہ تیسرا واقعہ مکمل ہوا۔

پھر ہم لاہور آگئے سات شوال کو ، ایک دن ٹھیک گزرنے کے بعد ٨ شوال کی رات کو ١٠ بجے بالکل فریش حالت میں اپنے دوست کے پاس گئے اور تقریبا رات دو بجے گھر لوٹے تو بہت زیادہ ابتر اور بری حالت میں تھے، پسینے میں شرابور تھے جیسے کسی نے ان سے پہاڑ کھدوایا ہو ۔

تو میں ان کی یہ حالت دیکھ کر بڑی پریشان ہوئی،ان سے پوچھا اس حالت کا تو انہوں نے تسلی بخش جواب نہیں دیا اور ٹال مٹول سے کام لیتے رہے تو پھر میرا دل مزید ان کے متعلق کٹھکنے لگا، کیونکہ آخر کے دو ماہ کے عرصے میں ان کی کچھ نامناسب چیزیں میرے علم میں آگئی تھیں، میں نے ان سے کہا کہ اﷲ جانیں،آپ جانیں آپ کی حرکتیں، جس پر شدید غصہ میں آ کر مجھے مارنے لگے اور مجھے کہا کہ برقعہ پہنو اور اپنی ماں کے گھر چلو،اسی لڑائی کے درمیان دس سے پندرہ منٹ بعد اسد کے والدین میرے ساس سسربھی شکر گڑھ سے لاہور پہنچ گئے ،جب میں نے اپنی ساس کو بتایا کہ اسد مجھے گالی دیتے ہیں اور مارتے ہیں تو اس بات پر اسد نے اپنی ماں کے سامنے میرے منہ پر بہت زور سے تھپڑ مارا،پھر میں نے روتے ہوئے اپنے سسر کو ساری صورتحال بتائی، جس کو سننے کے بعد انہوں نے اسد سے کہا کہ جیسے عزت سے لائے ہو ویسے ہی چھوڑ کر آ جاؤ۔

پھر  میرے سسر عقیل صاحب نے میرے منع کرنے کے باوجود اسد کے دوست عبدالسمیع کو گھر بلا لیا اور میرے ہی کمرے میں عبدالسمیع کو بٹھایا میرے منع کرنے کے باوجود اور مجھے کمرے سے باہر بھیج دیا۔

جب میری اور اسد کی عبدالسمیع کے ساتھ لڑائی اور اختلافات کے متعلق بات چیت ہوئی تو عبد السمیع نے اسد سے کہا کہ چھوڑ دے یار اس کو تم دونوں نے کبھی نہیں ٹھیک ہونا،اب تک میں تمھیں طلاق دینے سے روکتا رہا،مگر اب تم اسکو چھوڑ دو، پھر عبدالسمیع نے اسد کو کہا کہ تم بستر اٹھا کر کمرے سے باہر چلے جاؤ اور حمیرا سے الگ ہو جاؤ اور اس سے بات چیت بھی بند کر دو جب تک اس کے والدین نہیں آ جاتے۔

پھر کچھ دیر بعد ہی فجر کی نماز کے بعد اسد نے میرے ابو کو فون کیا کہ اپنی امانت کو آکر لے جائیں یا میں ٹکٹ کروا کر بھیج دوں اور پیپرز بھی دو تین دن بعد سائن (دستخط) کر کے بھیج دوں گا، اسی دن شام کو ابو نے اسد کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ آپکی بات میں کوئی لچک ہے تو اسد نے کہا کہ میرا فیصلہ اٹل ہے،میرے پاس کوئی لچک اور گنجائش نہیں ہے یہ بات میرے دو بھائیوں نے بھی سنی اور وہ اس پر گواہ ہیں،پھر اسی رات ہمارا لیپ ٹاپ والا جھگڑا بھی ہو گیا جس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال سے باخبر ہونے کے بعد کیا آپ کی رائے اب بھی یہی ہوگی کہ اسد صاحب کے ان الفاظ تم میری طرف سے فارغ ہو سے طلاق واقع نہیں ہوگی؟ کیونکہ بقول اسد کے حلف نامہ کے کہ اس سے اسکا مقصد ڈرانا دھمکانا تھا اور طلاق کی نیت نہیں تھی یا پھر میرے اس حلفاً بیان کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ان الفاظ کو ادا کرنے کا مقصد ڈرانا دھمکانا نہیں تھا بلکہ اس سے مراد طلاق ہی لی جائے گی، یہ ساری حقیقت عیاں ہونے کے بعد اس سے طلاق واقع ہو جائے گی؟

نوٹ: آخری کی لڑائی کے دنوں میں وہ مجھے بار بار چھوڑنے کا کہتے تھے اور یہ بھی کہا کہ تمھیں چھوڑنا تو ہے ہی،لیکن اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گا اور اسد کا طلاق کی تحریر والا پرچہ بھی ساتھ منسلک ہے۔

اس معاملے پر ہم نے دارالعلوم سے بھی فتویٰ لیا تھا جس پر ان کا طلاق بائن کا جواب آیا وہ فتویٰ بھی اس کے ساتھ منسلک ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ آپ کے شوہر نے عدم طلاق کا فتوی ہمارے دارالافتاء سے نہیں لیا،بلکہ جامعہ اشرفیہ لاہور سے انہوں نے رجوع کیا تھا جس کے جواب میں انہوں عدم طلاق کا فتوی جاری کیا ہے۔

چونکہ لفظ فارغ طلاق کے ان کنایہ الفاظ میں سے ہیں جو صرف جواب بننے کا احتمال رکھتے ہیں اور قرینے (مذاکرہ طلاق یا غصے کے)کی موجودگی کی صورت میں ایسے الفاظ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،اس لیے ہماری رائے کے مطابق بھی مذکورہ صورت میں شوہر کے جملے" تم فارغ ہو میری طرف سے "کے ذریعے ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے،کیونکہ شوہر نے یہ جملہ غصے کی حالت میں بولا ہے اور غصے کی حالت میں اس لفظ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔)احسن الفتاوی(188/5:

نیز طلاق بائن واقع ہونے کی صورت میں عدت کے دوران بھی شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں رہتا،اس لیے اگر آپ دونوں دوبارہ میاں بیوی بن کر اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑے گا،جس کے لئے میاں بیوی دونوں کا رضامند ہونا ضروری ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 301):
"(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ ": (قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب.
بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه ولا يكذبه الظاهر فيصدق في القضاء، بخلاف ألفاظ الأخير: أي ما يتعين للجواب لأنها وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق.....
والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

24/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب