021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ملازم کا کمپنی کی مشینوں کی خرابی کا کام اپنی کمپنی سے کروانا
74037جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

میرا نام حارث مسعود ہے،میں شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہوں،میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں بحیثیت انجینئر ملازمت کرتا ہوں،جس میں مشینوں اور اس کے پارٹس وغیرہ کی دیکھ بھال کرنا اور خرابی کی صورت میں دوسری کمپنی سے مشین کے پارٹس بنوانا بھی میری ذمہ داری ہے۔

آج کل کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سوچا ہے کہ میں پارٹ ٹائم کے طور پر اپنا کام بھی شروع کردوں،چنانچہ میں اپنے تجربے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سے کمپنی کھولنا چاہتا ہوں،جہاں میں اپنی اور دوسری کمپنیوں کی مشینوں کے پارٹس وغیرہ بنواکر ان کو مہیا کروں گا۔

کمپنی کےکام کا طریقہ کاریہ ہوتا ہے کہ کمپنی نے جو کام کروانا ہوتا ہے،دو یا تین کمپنیوں سے مذکورہ کام کا تخمینہ منگوایا جاتا ہے اور قیمت دیکھ کر کام دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے،اب میں بھی یہ کام اپنے تجربے کے مطابق اس کا تخمینہ اور اپنا منافع رکھ کر جمع کروانا چاہتا ہوں اور اگر کام منظور ہوجائے تو کام شروع کروانا چاہتا ہوں۔

اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ کمپنی کی جانب سے میری ذمہ داری تین حصوں پر مشتمل ہے:

ا۔مشین کے جو پارٹس خراب ہوجائیں انہیں بنوانا اور مشینوں کی دیکھ بھال کرنا۔

۲۔نئی مشینیں لگانا،یعنی ان کے لیے بجلی،پانی،ہوا،تیل اور گیس کے سارے کام کو مکمل کرنا اور سیٹ اپ بنانا،یہ سارا کام بھی دیگر کمپنیوں کی مدد سے مکمل ہوتا ہے۔

۳۔مشین کے جو پارٹس دوسرے ممالک سے خریدے گئے ہو انہیں پاکستان میں تلاش کرنا،تاکہ سستے پڑے۔

ان تین صورتوں میں سے میرا تجربہ پہلی اور تیسری میں ہے،اب میں اپنے تجربے کی بنیاد پر اپنی ایک کمپنی کھولنا چاہتا ہوں،جس میں خراب پارٹس مختلف کارخانوں سے بنواؤں اور اپنا نفع رکھ کر کام اپنی کمپنی کو دے سکوں،اس کام میں میں اپنا وقت،صلاحیت اور تجربہ بھی لگاؤں گا اور ساتھ ساتھ جس  کارخانے والے  سے کام کرواؤں گا اس کو اسی وقت اس کام کے پیسے بھی دے دوں گا۔

دوسری صورت والے کام میں میرا تجربہ اتنا نہیں ہے کہ میں اپنی کمپنی کھول سکوں،لیکن جس سے کام کرواؤں اگر اس سے بات کروں کہ اگر یہ کام آپ کو مل جائے تو مجھے میرا حصہ چاہیے،یہ صورت تو مجھے درست معلوم نہیں ہوتی،کیونکہ اس میں سارا کام وہ بندہ کرے گا،جبکہ مجھے بیٹھے بیٹھے پیسے ملیں گے۔

اب آپ سے گزارش ہے کہ میری راہنمائی فرمادیں کہ کون سی صورت میرے لیے جائز ہے اور کون سے ناجائز؟

تنقیح: سائل سے وضاحت طلب کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کا اصل ارادہ تو یہ ہے کہ اپنی کمپنی بنائے اور پھر مختلف جگہوں سے کام لے جس میں وہ کمپنی بھی شامل ہوگی جہاں وہ ملازمت کررہا ہے،البتہ فی الحال اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہے کہ وہ اپنی کمپنی بنائے،اس لیے جب تک اس کے پاس اتنا سرمایہ نہیں آجاتا وہ کمپنی کو اپنی طرف سے اس کام ایک تخمینہ بتاکر کمپنی سے کام لے گا اور دوسرے کارخانوں سے کروائے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دوسری صورت اختیار کرنا تو آپ کے لیے جائز نہیں،کیونکہ یہ کام تو آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور کمپنی آپ کو اس کی تنخواہ دیتی ہے،البتہ پہلی صورت اختیار کرنا آپ کے لیے اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ پہلے
آپ اپنی کمپنی بنائیں،پھرکمپنی کا کام پڑنے کی صورت میں آپ مکمل دیانت داری کے ساتھ مختلف کمپنیوں سے اس کام کا تخمینہ لگوائیں اور اس میں اپنی کمپنی سے کام کروانے کا تخمینہ بھی شامل کرکےکمپنی کے بڑوں کے سامنے رکھ دیں،پھر اگر وہ آپ سے کام کروانا چاہیں تو آپ کے لیے اس کام کا نفع حلال ہوگا۔

جب تک آپ اپنی کمپنی نہیں بنالیتے تب تک آپ کے لیے کمپنی سے کام لے کر دوسروں سے سستے میں کرواکر نفع لینا جائز نہیں،کیونکہ آپ کمپنی کی طرف سے مشینوں کی خرابی ٹھیک کروانے کے وکیل ہیں اور وکیل کے لیے قیمت میں جو کمی کی جاتی ہے وہ اصیل(جس کے لیے کام کروایا جارہا ہے) کے حق میں کمی شمار ہوتی ہے،اس لیے دیگر کارخانوں والے آپ کو جو ڈسکاؤنٹ دیں گے وہ کمپنی کا حق ہوگا،آپ کا نہیں،لہذا اسے استعمال میں لانا آپ کے لیے جائز نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
"اعلاء السنن" (14/ 635):
"والحاصل ان حد الرشوة ھو ما یؤخذ عما وجب علی الشخص ،سواء کان واجبا علی العین اوعلی الکفایة وسواء کان واجبا حقا للشرع کمافی القاضی وامثالہ او کان واجبا عقدا کمن آجرنفسہ لاقامة امر من الامور المتعلقة بالمسلمین فیما لھم او علیھم کاعوان القاضی واھل الدیون وامثالھم".
"المبسوط للسرخسي" (19/ 60):
"ولو حط البائع شيئا من الثمن عن الوكيل؛ ثبت ذلك للآمر؛ لأن حط بعض الثمن يلتحق بأصل العقد، ويخرج قدر المحطوط من أن يكون ثمنا، بخلاف ما لو وهب البائع الثمن كله للوكيل؛ كان له أن يرجع على الموكل بالثمن؛ لأن حط الكل لا يلتحق بأصل العقد، إذ لو التحق بأصل العقد؛ فسد البيع؛ لأنه يبقى بيعا بغير ثمن، وهوفاسد".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

29/محرم1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب