021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تاش،لڈو اور کیرم بورڈ وغیرہ ذہنی ریفریشمنٹ کے لیے کھیلنے کاحکم
74068جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم آپس میں رشتہ دار ، بھائی کزن وغیرہ اپنے گھر کے اندر کبھی کبھار شاید مہینے میں ایک بار یا کبھی پانچ چھ ماہ بعد آپس میں کوئی نہ کوئی گیم کھیلتے ہیں ، جیسے تاش ، لڈو ، کیرم بورڈ وغیرہ ، اس کھیل کے دوران کسی قسم کے حقوق کا ضیاع نہیں ہوتا اور نماز پڑھنے والے احباب نماز بھی پڑھتے ہیں یعنی نہ حقوق اللہ کا ضیاع ہے اور نہ ہی حقوق العباد کا اور اس میں جوا وغیرہ بھی نہیں لگاتے صرف ذہنی ریفریشمنٹ اور انٹرٹینمنٹ کے لیے کھیلتے ہیں ۔اس تمام صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے بتائیے کہ اس طرح کا کھیل کا ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟؟

                                     کیا یہ جائز ہے یا نا جائز یا مکروہ ہے یا حرام  ؟؟ اس کا جو بھی حکم ہے قرآن و حدیث سے اس کی دلیل ضرور دیجئے گا ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن و حدیث میں تاش،لڈو وغیرہ کا ذکر نہیں  آیا ہے ،البتہ کھیلوں کے بارے میں بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں جن کی روشنی میں حکم یہ ہے کہ تاش،لڈو اور کیرم بورڈ وغیرہ شرط لگاکر کھیلنا ناجائز ہے، اور بلا شرط کھیلنے میں اگر ایسا  انہماک ہو کہ فرائض میں کوتاہی و غفلت ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔اور فرائض کی ادائیگی  کا خیال رکھتے ہوئے صرف وقت گزاری کے لیے بلا شرط کھیلنے  میں بھی کوئی غرض صحیح نہیں ہے،البتہ ذہنی ریفریشمنٹ اور انٹرٹینمنٹ  کے لیے کھیلنا جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ کوئی ایسا کھیل کھیلا جائے جس میں جسمانی ورزش بھی ہو ۔

                       

حوالہ جات
إن اللہو علی أنواع: لھو مجرد، ولھو فیہ نفع فائدۃ ولکن ورد الشرع بالنھی عنہ، ..... ولھو فیہ فائدۃ مقصودۃ ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدۃ دینیۃ واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدۃ المطلوبۃ لا بقصد التلھی،، فھذہ خمسۃ أنواع لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحۃ اللھو فی شیئ، بل إباحۃ ما کان لھواً صورۃ ثم خرج عن اللھویۃ بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھواً.(أحکام القرآن للتھانوی: 199/3)
                                                قال شیخ الاسلام محمد تقی العثمانی مد ظلہ :فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريما، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً.
والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه". (تکملة فتح الملھم:4/ 435)
 

محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

29 محرم الحرام 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب