021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کمیٹی کا شرعی حکم
74052جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 
ہمارے علاقے بٹگرام میں غمی یعنی فوتگی کےلئے کمیٹیاں قائم ہیں جو فنڈز جمع کرتی ہیں،اور فوتگی ہونے پر اس فنڈ سے اہلِ میت اور دورسے آئےہوئے مہمانوں کیلئے کھانے کا انتظام کرتی ہیں۔اس طرح کھانے کے انتظام کی کتنے دنوں تک گنجائش ہے؟ نیز اہلِ میت کا تعین کریں، اور انتظام میں خرابیوں کی نشاندھی کریں۔جواب تفصیلاًمطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اسلام نہ صرف روحانیت ہےاور نہ صرف مادیت بلکہ دونوں کا حسین سنگم ہے۔اسلام نے انسانی معاشرہ کو مکمل طور پر نہ تو مادیت کے حوالے کیا کہ انسان اپنی مادی خواہشات کے سامنے اپنے روحانی تقاضوں سے غافل ہو کر اپنی دنیاوآخرت دونوں خراب کرے،اور نہ مکمل طور پر روحانیت کے سپرد کیا کہ مثل عیسائیوں کے رہبانیت اختیار کر کے ضال ومضل (خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کے لیے بھی گمراہی کا سبب بنے) ٹھہرے،بلکہ ہمہ گیر یت اور عالمگیریت کی بناء پر ہرانسان کی اصلاح وفلاح بلکہ اس کی زندگی اوربقاء موقوف ہے باہمی تعاون پر،جس طرح دنیا کاسارانظام تعاون وتناصرسے چلتا ہے، اسی طرح مرنے سے لیکر قبر میں دفن ہونے تک کے سارے مراحل بھی اسی تعاون کے محتاج ہیں، بلکہ اس کے بعد بھی انسان اپنے پیچھے رہنے والوں کی دعاءِ مغفرت اور ایصالِ ثواب کامحتاج رہتا ہے۔اسی باہمی تعاون کے اصول کی بناء پر اہلِ میت اور دورسے تعزیت کے لئے آئے ہوئے مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام اہلِ محلہ اور اعزہ کی انسانی اور اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے، بالخصوص دیہی علاقوں میں جہاں ہوٹل نہیں ہوتے۔کیونکہ اہلِ میت کے لئے یہ انتہائی دکھ اور صدمے کے لمحات ہوتے ہیں،وہ اکثر میت کی لمبی بیماری پر ہسپتال میں مسلسل تیمارداری کی مشقت اورپھر انتقال کی صورت میں اپنے عزیز کی موت کے صدمےسےچورہوتے ہیں،اگر لوگ ان کے تعاون کی بجائے الٹا کھانے کے انتظام کا بوجھ ان پر ڈالدیں تو اس سے نہ صرف ان کی پریشانی بڑھے گی،بلکہ یہ ایک غیر انسانی اورغیر اخلاقی فعل ہو گا،اس لیے اہلِ محلہ کا اس طرح باہمی تعاون وتناصرکانظم بناناجس سے یہ مشکلات دورہوں ،جائز ہے ،لیکن واضح رہے کہ باہمی تعاون کا یہ انتظام ایک دودھاری تلوار ہے جو اپنے اوپر بھی چل سکتی ہے، اس لیے  کہ اس انتظام میں اگر شرعی اور اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھا جائے تو یہ نہ صرف ایک رسم بن جائیگا بلکہ اس میں بہت سے غیر اخلاقی اورغیر شرعی امورداخل ہو جائینگے،اس لئے ذیل میں ہم بالترتیب چند خرابیوں کی نشاندھی کرتے ہیں جو اس طرح کے نظم میں ہوسکتی ہیں:

(1)معاشرے کے وہ افراد جو مسکین، محتاج اور نادار ہوں یا کسی طبعی عذرکی وجہ سے معذور ہوں جس کی وجہ سے وہ خودروزی کمانے کے لائق نہ ہوں یا مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سےان کی حالت کمزور ہو گئی ہو، توا ن کوبھی مثل دیگر اغنیاء کے چندے میں برابرطورپر شریک کرنا غیر اخلاقی فعل ہوگا، ایسی صورت میں اسلام مالدار لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے اضافی مال کواچھائی کے کاموں میں خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی عظمت اور اخلاقی برتری کاثبوت دیں۔

(2)کم استطاعت رکھنے  والوں سے ان کی قدرت سے زائد کا مطالبہ نہ کیا جائے۔

(3)کھانے کا انتظام سادہ ہو، اس میں تکلفات،بے جا اسراف اور فضول خرچی سے احتراز کیا جائے۔

(4)جن لوگوں کے گھر قریب ہوں اور  کھانے کے لیے گھر جاسکتے ہوں،ان کا بھی کھانے کے انتظار میں بیٹھے رہنا اور شریک ہونا مناسب نہیں، البتہ اگر کھانا حاضر ہو اور عین اسی وقت کوئی آئے تو اس کو کھانے میں شریک نہ کرنا خلافِ مروءت ہے ، چاہے اس کا گھر قریب ہی کیوں نہ ہو۔

(5)۔کھانے کے انتظام کا یہ سلسلہ ضرورت و حاجت سے زیادہ جاری رکھنا جیساکہ بعض علاقوں میں رواج ہے کہ کئی ہفتوں تک خام اشیاء اور اناج وغیرہ کی شکل میں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، یہ بھی خلافِ شرع اورمحض رواج ہے۔

(6).اہلِ محلہ کا صرف کھانا پہنچا کر واپس آنا کافی نہیں، بلکہ کھانا کھلانے کا انتظام بھی کرناچاہیے،فقہاءکرام نے تو اصرار کے ساتھ اہلِ میت کو کھلانے کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ کمزور نہ ہوں۔

(7).صاحبِ وسعت حضرات کا استطاعت کے باوجود منتظمہ کمیٹی کو رقم دینے میں ٹال مٹول سے کام لینا بھی اچھا نہیں ہے۔

(8)۔ انتظام کرنے والوں کا دوسروں پر تفاخر اور بڑائی جتلانا بھی درست نہیں۔

(9)۔ اہلِ میت کی موجودگی میں رقوم جمع کرنے کی دعوت دینا یا اہلِ محلہ سے گلہ شکوہ کا اظہار کرنا جو اہلِ میت کیلئے تشویش کا باعث ہو، اس سے احتراز کرنا چاہئے۔

(10)۔ انتظام و خد مت گزاری کے بعد اہلِ میت پر احسان جتلانے سے بچنا چاہئے۔

(11)۔ انتظام وانصرام میں امیر وغریب کی میت ہونے میں کوئی امتیاز نہ برتا جائے تاکہ ناداروں،مفلسوں کی حوصلہ شکنی  نہ ہو ۔

 (12)۔اگرمیت کی وفات کے وقت ہی ہنگامی طور پر فنڈ فراہم کیا جاتا ہو تو میت کے اہل خانہ سے اس مد میں کوئی رقم نہ لی جائے،کیونکہ یہ مرنے والے کے اہلِ خانہ کی طرف سے دعوت کے مماثل عمل ہو جائے گا۔(ایسے میں  بچ جانیوالی رقم چندہ دھندگان ہی کی مملوک ہوگی ،جوان ہی کو واپس کی جائے یا ان کی صوابدیدپر آئندہ کےلیے صدقہ یا خرچ کی جائے)

(13)۔ اگر پہلے سے فنڈ جمع کیا جاتا ہو تو پھر کمیٹیوں کا قیام وقف کی بنیاد پر ہو اور ممبر بنانے کے فارم پر شروع ہی میں تحریر ہو کہ یہ کمیٹیاں وقف ہیں اور ان میں دی جانے والی رقم وقف کی مملوک ہونگی، کمیٹیوں کو وقف پر چلانے کا طریقہ یہ ہوگا کہ ابتداء میں کچھ رقم وقف کی جائے جس کو خرچ کرنا جائز نہ ہوگا، کیونکہ وقف میں اصل کو باقی رکھنا ضروری ہوتا ہے، جب وقف فنڈ قائم ہوجائے تو اس کے بعد مزید رقوم مملوکِ وقف ہونگی اور ان رقوم کو واقفین کے بنائے ہوئے جائز ضابطوں کے مطابق خرچ کرنا ہوگا۔ پس مذکورہ بالا خرابیوں سے بچتے ہوئے اگر اہلِ محلہ باہمی تعاون وتناصر کے قرآنی اصول کے تحت فنڈ جمع کرکے اہلِ میت اور ان کے دور سے آئے ہوئے مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کریں تو یہ عقدِ تبرع اور وقف کہلائے گا اور ایسا کرنا درست ہوگا۔

جمہور فقہاء اکرم نے اکرچہ بالعموم چوبیس (24) گھنٹے کے کھانے کے انتظام کا ذکر کیا ہے،مگر دیہی اور قبائلی زندگی میں مہمانوں کی آمدو رفت اور تعزیت کا سلسلہ عموماً تین دن تک رہتا ہے،لہذا اگر کھانے کے انتظام کا سلسلہ (24)گھنٹے سے زیادہ جاری رکھنا ناگزیر ہو تو تین دن تک اس کی گنجائش ہے، اس لئےکہ حدیثِ "صنعتِ طعام"میں "وقدأتاھم مایشغلهم" سے اس کی علت ناقابلِ تلافی صدمہ ودکھ کا موجود ہونا معلوم ہوتاہے ۔پس اگر اس کا اثر تین دن تک ہو، تو صنعتِ طعام کی  تین دن تک بھی گنجائش ہو گی ۔  "کفایہ المفتی" میں بھی تین دن کے قول کو مفتی بہ قرادیاہے۔اور علامہ بہوتی حنبلی نے حنابلہ کا مسلک تین دن کا نقل کیا ہے۔اہلِ میت کی تحدید بظاہر فقہاء نے نہیں فرمائی ہے، حدیث اصنعوالآل جعفر"میں آل کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آل کا اطلاق لغۃً "زوجة الرجل، اسرتہ وأقاربہ"پر ہوتاہے، پس اہلِ میت کا مصداق میاں، بیوی، اصول وفروع اور خاص کر وہ قریبی رشتہ دارہوں گے جن کے گھر فوتگی ہوئی ہے، نہ یہ کہ تمام کنبہ وبرادری کے لوگ۔

حوالہ جات
 فی مشکوۃ المصابیح (ج1:،ص: 153)
عن عبد اللہ بن عباس بن جعفر قال لماجاء نعی جعفر قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اصنعوالآل جعفر طعاما فقدأتاھم مایشغلهم"(رواہ الترمذی وابو داؤد وابنِ ماجہ)
وفی مرقاۃ المفاتیح (ج:4،ص:96)
قال الطیبی: دل علی انہ یستحب للأقارب والجیران ان تهیئة الطعام لأهل المیت والمراد طعام یشبعهم یومهم ولیلتهم فان الغالب ان الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا یستمر أکثر من یوم وقیل یحمل لہم طعام الی ثلاثة أیام مدۃالتعزیة"
" قال البہوتی فی کشاف القناع"ویسن ان یصنع لأھل میت یبعث بہ الیهم ثلاثا ای ثلاثة أیام"
قال المحدث السہارنفوری: والمراد طعام یشبعهم یومهم ولیلتهم، فإنہ الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لایستمر أکثر من یوم ؛ وقیل: یحمل لہم طعام إلی ثلاث أیام مدۃ التغزیۃ ۔( بذل المجہود، کتاب الجنائز، باب صنعۃ الطعام لأهل المیت ، دارالبشائر الإسلامیہ ۱۰/ ۴۰۳، رقم الحدیث/۳۱۳۲)

حکیم شاہ بتوسط بخت منیر

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

30/محرم 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب