021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین بطن کا مناسخہ
74054میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

    ایک شخص معراج کا انتقال ہوا اوراس نے ترکہ میں تین دکانیں چھوڑی ہے،ان میں  سےدو آنرشب  پرتھی اورایک دکان پگڑی پر تھی،معراج کی موت کے وقت اس کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:

بیوی سلیمہ،دوبیٹے پرویزومحمدخالداوردوبیٹیاں حنا اورعالیہ۔

معراج کےچندسال  بعدپرویز فوت ہوا  اورموت کے وقت اس کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:

بیوی صادیہ،والدہ سلیمہ،ایک بیٹاحسان،اوردوبیٹیاںسحرا اورعشا،ایک بھائی محمدخالد،دوبہنیں حنااورعالیہ۔

پرویز کی بیوی نےاپنے خاوند کا حصہ جوان کو اپنے والد معراج سےملنا تھا مانگاجوان کودے دیاگیااوریہ محمدخالدنے اپنی طرف سےدیا تاکہ بھائی پرویز کی میراث اس کی ہوجائے،ان کا ارادہ تھاکہ باقی ورثہ یعنی والدہ اوردوبہنوں کے حصے بھی اپنے طرف سے دیکر ان کے میراث کو بھی لے لے،لیکن پھر زندگی نے وفاء نہیں کی ۔

پرویزکے بعدمحمدخالد  کا  انتقال  ہوا اورانتقال کے وقت اس کے درج ذیل ورثہ زندہ تھے:

بیوی کرن،والدہ سلیمہ،ایک بیٹاشارع،اوردوبیٹیاں حفصہ اورحانیہ،دوبہنیں حنا اورعالیہ۔

برائےکرم یہ وضاحت فرمائیں کہ ان سب ورثہ میں میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

          صورتِ مسئولہ میں چونکہ تین لوگ  یکے بعددیگرےفوت ہوئے ہیں اور ان میں سے بعض بعض کے وارث ہیں، لہذاموجودہ صورت میں مرحومین  کے مال میں سے جن جن ورثاء کوجو جوحصہ ملے گا،آسانی کے لیے ذیل میں اس کاجدول ملاحظہ ہو۔                                                                  مورث اعلی معراج/ کل مال :100

دیگرتفصیل

فیصد

مورث اعلی سے رشتہ

زندہ ورثہ

نمبر شمار

خاوندمعراج،بیٹےپرویز اوربیٹےمحمدخالد سے

22.223٪

زوجہ

سلیمہ

1

والدمعرج سے

14.584٪

بیٹی

حنا

2

والدمعرج سے

14.584٪

بیٹی

عالیہ بیٹی

3

شوہرپرویزسے /یہ محمد خالد کے ورثہ کو ملےگا

3.645٪

بہو

صادیہ

4

والدپرویز سے/ یہ محمد خالد کے ورثہ کو ملےگا

10.329٪

پوتا

حسان

5

والدپرویز سے/ یہ محمد خالد کے ورثہ کو ملےگا

5.166٪

پوتی

سحرا

6

والدپرویز سے/ یہ محمد خالد کے ورثہ کو ملےگا

5.165٪

پوتی

عشا

7

شوہر خالد سے

3.645٪

بہو

کرن

8

والد خالد سے

10.329٪

پوتا

شارع

9

والد خالد سے

5.165٪

پوتی

حفصہ

10

والد خالد سے

5.165٪

پوتی

حانیہ

11

 

100٪

 

ٹوٹل:

 

چونکہ پرویز کی اہلیہ نے پرویز کا جو حصہ  معراج کی میراث میں بنتاتھا وہ وصول کرلیاتھا جیسے کہ سوال میں ہے اوروہ خالد نے ادا کیا تھالہذا اوپر چارٹ میں جوپرویزکی اہلیہ(صادیہ)بیٹے (حسان) اوربیٹیوں (سحرااورعشا) کا حصہ لکھاگیاہے وہ محمدخالدکے ورثہ یعنی ان کی اہلیہ (کرن) بیٹا (شارع) اوربیٹیاں(حفصہ اورحانیہ)کو ملے گا۔

چونکہ پرویز اورمحمد خالد کے ورثہ کی تعداد برابرہے ،لہذا پرویز کی بیوی صادیہ کا حصہ محمدخالد کی بیوی کرن کو اورپرویز کے بیٹے حسان کاحصہ محمدخالد کے بیٹے شارع کو اورپرپرویزکی بیٹی سحرا کا حصہ محمد خالدکی بیٹی حفصہ کو اورپرویز کی دوسری بیٹی عشا کاحصہ محمدخالدکی دوسری بیٹی حانیہ کودیدیاجائےگا۔

واضح رہے کہ  یکے بعد دیگرے ورثہ کے فوت ہونے کی صورت میں دوسری میت سے آخر تک کے اموات کوپہلی میت سے بھی ملتاہے اورعام طورپر فوت ہونے کے وقت ان  کی ذاتی ملکیت میں بھی کچھ نہ کچھ مال ہوتاہے تو جب ان کا مال تقسیم ہوتوپہلی میت سے ملنے والے مال کے ساتھ  اس کے دیگرذاتی اموال کو بھی ملایاجاتاہے جو بوقت موت ان کی ملکیت میں ہوتاہے لہذا مسئولہ صورت میں دوسری میت پرویزسے لیکر آخری میت خالدتک جتنے ورثہ فوت ہوئےہیں ، ان کی میراث تقسیم کرتے وقت دونوں مالوں(پہلی میت سے ملنے والااوراپنا) کو جمع کرلیا جائےگا،اورپھر کل مال جتنا بھی ہوجائے اس کوورثہ میں تقسیم کیاجائے گا، تقسیم کا طریقہ کار وہی ہوگاجو اوپر مذکورہوا ۔

حوالہ جات
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..."  (ص:696, المكتبة الشاملة)
قال في الفتاوى الهندية:
"وهوأن يموت بعض الورثةقبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل ،ولم تقسم تركته
 حتى مات بعض ورثته ......فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول،ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة ؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمة بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب."     (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة)
قال اللَّه تعالى في القرأن الكريم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ..... وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْن.... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ...... }             [النساء: 12, 11]

   سیدحکیم شاہ عفی عنہ

   دارالافتاء جامعۃ الرشید

 29/1/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب