021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدعی کا مدعیٰ علیہ کو قسم معاف کرنے کے بعد دوبارہ دعویٰ کرنا
74061دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میں نے 1984ء میں کپڑے کی دکان بنائی ہے، میرے ساتھ ہمیشہ درزی ہوتا ہے۔ میرے نہ ہونے کی صورت میں ساری ذمہ داری کپڑا بیچنا اور دکان کی حفاظت کرنا اس پر لازم ہوتا ہے۔ درزی سال یا کم و بیش وقت گزار کر چلے جاتے ہیں؛ کیونکہ وہ جانے میں خود مختار ہوتے ہیں۔ ابھی تک کسی قسم کی شکایت نہیں آئی تھی۔ ہم ہمیشہ دکان کا سالانہ حساب کرتے ہیں۔

 2018ء میں میں نے اقبال درزی کو (دکان پر) بٹھایا، دکان کا سالانہ حساب کیا تو نقصان ہوا تھا، میں خاموش رہا۔ 2019ء میں میں حج پر چلا گیا، تقریبا تین (3) ماہ دکان اقبال درزی کے حوالہ رہی۔ 2020ء میں سالانہ حساب کیا تو پھر نقصان ہوا۔ میں نے اقبال درزی سے کہا کہ معاملہ اس طرح ہے کہ کل سرمایہ چھ لاکھ سینتیس ہزار (637000) تھا، اور اب دو لاکھ پینسٹھ ہزار (265000) رہ گیا ہے۔ میں نے اقبال درزی پر دعویٰ کیا کہ ہمارا کپڑا کہاں گیا؟ اس نے کہا آپ کپڑا لائے نہیں۔ میں نے اس کے سامنے سارا بل اور رجسٹر رکھ دیا۔ اس نے فورا کہا میں قسم دوں گا اور صلح سے انکار کیا۔ میں اس کو ایک مفتی کے پاس لے گیا، مفتی صاحب نے مجھ سے گواہ کے بارے میں پوچھا، گواہ میرے پاس نہیں تھے، مفتی صاحب نے کہا مدعی علیہ قسم اٹھائے گا یا قسم نہ کرنے کی صورت میں بیس ہزار (20000) روپے کفارہ دے گا۔ میں بلڈ پریشر کا مریض ہوں، میں نے غصہ کی وجہ سے قسم اور کفارہ دونوں معاف کیے۔ لیکن نقصان بہت زیادہ ہے، اب میرا وہی پرانا دعویٰ ہے اور اس سے میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ یہ معاملہ تقریبا آٹھ (8) ماہ سے چل رہا ہے۔

کیا اب میں اقبال درزی سے دوبارہ قسم لے سکتا ہوں یا نہیں؟ وہ صلح سے انکار کرتا ہے۔  

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ: اقبال درزی ہماری دکان پر اپنا کام کرتا تھا، ہم اس سے کرایہ نہیں لیتے تھے، لیکن دکان کی حفاظت اور ہمارے نہ ہونے کی صورت میں گاہک کو کپڑا دینا اس کی ذمہ داری تھی۔ مفتی صاحب کے پاس ہم مسئلہ پوچھنے کے لیے گئے تھے، میرا خیال تھا کہ میرے پاس چونکہ گواہ نہیں، اس لیے مفتی صاحب قسم کا مسئلہ بتائیں گے جس سے اقبال درزی ڈر جائے گا، پھر ہم جرگہ کے ذریعے فیصلہ کرالیں گے۔ لیکن جب مفتی صاحب نے کہا کہ یا یہ قسم اٹھائے گا اور یا آپ کو کفارہ کے طور پر 20000 ہزار روپے دے گا تو مجھے غصہ آیا کہ لاکھوں کا نقصان ہے اور اس کا کفارہ صرف بیس ہزار روپے، پس غصے میں قسم اور کفارہ دونوں معاف کیے۔ لیکن اب میں اس سے قسم لینا چاہ رہا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ دعویٰ، قاضی اور جج کی مجلس میں ہوتا ہے، یا پھر جن معاملات میں تحکیم کا اعتبار ہوتا ہے ان میں تحکیم کی مجلس میں ہوتا ہے۔ تحکیم، فریقین کا باہمی رضامندی سے کسی شخص یا اشخاص کو اپنے معاملے میں فیصلے کا اختیار دینے کو کہتے ہیں۔ قضا اور تحکیم کی مجلس کے علاوہ کسی جگہ مدعیٰ علیہ سے قسم طلب نہیں کی جا سکتی؛ کیونکہ ان دو جگہوں کے علاوہ مدعیٰ علیہ پر قسم واجب نہیں ہوتی۔ اگر کسی مدعی نے مدعیٰ علیہ سے قضا اور تحکیم کی مجلس کے علاوہ کہیں قسم طلب کی اور اس نے قسم اٹھالی یا قسم سے اٹھانے سے انکار کیا تو اس قسم اٹھانے اور انکار کرنے دونوں کا اعتبار نہیں ہوگا؛ لہٰذا اس کے بعد مدعی قاضی یا حَکَم کی مجلس میں اس سے دوبارہ قسم کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر مذکورہ تفصیل درست ہے تو آپ کا دعویٰ ساقط نہیں ہوا اور آپ اقبال درزی سے قاضی یا حَکَم (وہ ثالث جس کو فریقین اپنے معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیدیں) کے سامنے قسم کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ مذکورہ مفتی صاحب سے صرف مسئلہ پوچھنے کے لیے گئے تھے تو اقبال درزی پر اس وقت قسم واجب نہیں تھی، اور جو چیز واجب نہ ہو، اس کی معافی اور ابراء شرعا معتبر نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس وقت قسم معاف کرنے سے آپ کا حق ختم نہیں ہوا۔

یہاں اس بات کی وضاحت بھی مناسب ہے کہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعیٰ علیہ پر قسم لازم ہوتی ہے۔ اسے قسم اٹھانے اور مدعی کو کچھ پیسے دینے میں اختیار نہیں ملتا۔ البتہ اگر وہ دونوں باہم رضامندی سے کسی چیز پر صلح کر کے دعویٰ ختم کرنا چاہیں تو اس کا ان کو اختیار ہے۔  لہٰذا سوال میں مذکورہ مفتی صاحب کی طرف منسوب کر کے جو بات لکھی گئی ہے کہ اقبال درزی یا قسم اٹھائے گا یا آپ کو بیس ہزار روپے کفارہ دے گا، یہ بات شرعا غلط ہے۔

 

 

حوالہ جات
المجلة مع شرحها للأتاسی(5/5-3):
المادة 1613: الدعوى هي طلب أحد حقه من آخر في حضور الحاكم  ويقال للطالب المدعي وللمطلوب منه المدعى عليه.
الشرح: …..ثم إن المراد بالحاکم فی قوله هنا "فی حضور الحاکم" ما یعم المحکم فیما یجوز فیه التحکیم بشروطه الآتیة فی کتاب القضاء.  و عبارة الملتقی مع شرحه مجمع الأنهر: هی أی الدعوی إخبار عند القاضی أو المحکم؛ فإنه شرط کما فی الکافی و غیر ه اھ.
المجلة مع شرحها للأتاسی(5/404):
المادة 1744: لا تكون اليمين إلا في حضور الحاكم  أو نائبه، ولا إعتبار بالنكول عن اليمين في حضور غيرهما.
الشرح: لأن الیمین لقطع الخصومة، و الخصومة إنما تکون فی حضور الحاکم. و فی الفصل الخامس عشر من جامع الفصولین: ادعی علیه مالا فأنکر فاصطلحا علی أن یحلف المدعی علیه و هو برئ من المال، فحلف المدعی علیه بطل الصلح و المدعی علی دعواه، لو برهن أخذه، و إلا یحلفه القاضی لو لم یکن الحلف الأول عند القاضی؛ إذ الیمین عند غیر القاضی لا تعتبر؛ إذ المعتبر یمین قاطعة للخصومة، و الیمین عند غیر القاضی غیر قاطعة. و لو کان الحلف الأول من القاضی لا یحلفه ثانیا. و کذا لو اصطلحا أن المدعی لو حلف فالمدعی علیه ضامن للمال و حلف بطل الصلح، و لا شیئ علی المدعی علیه، و رمز للخصائل النسفی کما أن النکول عند غیر القاضی لا یعتبر فکذا التحلیف.
بدائع الصنائع (6/ 50):
ولو ادعى على إنسان مائة درهم فأنكر المدعي عليه فتصالحا على أنه إن حلف المدعى عليه فهو بريء فالصلح باطل والمدعى على دعواه حتى لو أقام بينة أخذه بها لأن قوله على أنه إن حلف المدعى عليه فهو بريء تعليق البراءة بالشرط وأنه باطل لأن في الإبراء معنى التمليك،  والأصل في التمليك أن لا يحتمل التعليق بالشرط. وإن لم تكن له بينة وأراد استحلافه فهو على وجهين: إن كان ذلك الحلف عند غير القاضي فله أن يستحلفه عند القاضي مرة أخرى؛ لأن تلك اليمين غير معتبرة؛ لأنها غير واجبة ولا تنقطع بها خصومة فلم يكن معتدا بها،  وإن كان عند القاضي لم يستحلفه ثانيا لأن الحلف عند القاضي معتد به فقد استوفى المدعي حقه مرة فلا يجب الإيفاء ثانيا.
المبسوط للسرخسي (18/ 282):
 فإن قيل: أليس أن يمين المنكر توجب براءته شرعا؟ قلنا عن اليمين لا؛ فإنه لو حلف في غير مجلس الحكم لا تثبت به البراءة، وكذلك في مجلس الحكم اليمين لا توجب البراءة، ألا ترى أن بينة المدعي بعدها مسموعة، ولكن إنما لا يكون له أن يخاصمه بعد يمينه لانعدام الحجة من إقرار أو نكول أو بينة فتتأخر خصومته إلى أن يجد حجة، لا أن تكون اليمين موجبة للبراءة. ولو ادعى الطالب عليه المال فحكما رجلا فحلفه، فإن حلف انقطعت الخصومة؛ لأن الحكم في حقها كالقاضي، وباليمين في مجلس القاضي تنقطع الخصومة إلا أن يجد البينة، فإن أبى أن يحلف فقضي الحكم عليه بالمال كان جائزا بمنزلة ما لو كان عند القاضي. وهذا هو الأصل أن كل يمين لو امتنع منها يستحق القضاء بها عليه فإذا حلف تنقطع الخصومة به، وفي كل يمين لو امتنع منها لا يصير القضاء مستحقا عليه فالخصومة لا تنقطع بتلك اليمين.
الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 158):
 الإبراء  ………….. ج - وجوب الحق ، أو وجود سببه :
36 - الأصل أن يقع الإبراء بعد وجوب الحق المبرأ منه ، لأنه لإسقاط ما في الذمة ، وذلك بعد انشغالها . ولكنه قد يأتي قبل وجوب الحق ، وهنا إما أن يكون بعد وجود السبب الذي ينشأ به الوجوب ، وأما أن يكون قبله .
والفقهاء متفقون على عدم صحة الإبراء قبل وجود السبب، فوجوده شرط للصحة متفق عليه ؛ لأن ما لم يوجد سبب الاستحقاق فيه ساقط أصلا بالكلية ، فلا معنى لإسقاط ما هو ساقط فعلا ، ويكون الإبراء منه مجرد امتناع ، وهو غير ملزم ، لأنه وعد ، وله الرجوع عنه والمطالبة بما أبرأ منه ، على ما سبق .
37 - وأما بعد وجود السبب ففي اشتراط وجوب الحق وحصوله فعلا خلاف : فذهب الجمهور ( الحنفية ، والشافعية في الأظهر ، والحنابلة ) إلى أنه شرط ، فلا يصح الإبراء قبل الوجوب وإن انعقد السبب ، واستدلوا بحديث لا طلاق ولا عتاق فيما لا يملك  . والإبراء في معناهما ، وقد اعتبروا ما لم يجب ساقطا فلا معنى لإسقاطه . وقد مثل الحنفية لذلك بالإبراء عن نفقة الزوجية قبل فرضها ( أي القضاء بتقديرها ) فلا يصح ، لأنه إبراء قبل الوجوب - بالرغم من وجود السبب وهو الاحتباس - وإسقاط الشيء قبل وجوبه لا يصح .

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

1/صفر المظفر /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب