021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نسلی قادیانیوں کے ذبیحہ کا حکم اورحضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ علیہ کی ذاتی رائے
74076ایمان وعقائدایمان و عقائد کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارےمیں کہ

مفتی اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب شاہجہاں پوری ثم دہلوی نے مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کے پیروکاروں کو خواہ وہ قادیانی گروپ سے تعلق رکھتے ہوں یا لاہوری گروپ سے، دائرہ اسلام سے خارج، کافراورمرتد مانا ہے اوراس کے بیشماردلائل پیش کیے ہیں۔لیکن نسلی قادیانی یعنی جس کے ماں باپ مرتد ہوکر قادیانی ہوئے ہوں اوراولاد اپنے ماں باپ کے تابع ہونے کی وجہ سے قادیانیت پر باقی ہو تو ایسے قادیانی کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز قراردیاہے اوراس کو اہلِ کتاب میں شمارکیاہے ۔

سوال یہ ہےکہ یہ موقف جمہورعلماءِ اہلِ سنت کے خلاف ہے یا موافق ؟ اگرجمہورکے خلاف ہے تو دلائل کے ساتھ اس کی تفصیلی وضاحت مطلوب ہے۔اس حوالے سے دارالعلوم دیوبند کا فتوی برائے ملاحظہ منسلک ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 قادیانیوں کی اولادبھی زندیق اورکافر ہیں اوران کا ذبیحہ حرام اور مردار ہے،لہذا دارلعلوم دیوبندکا منسلکہ فتوی بالکل درست ہے، ان کو اہل کتاب کے حکم میں  قراردینا سمجھ میں  نہیں  آتا ہے ، علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی نےغالی روافض کو کافرقراردیاہےاوراہلِ کتاب ہونے کی صراحةً نفی کی ہےتوقادیانیوں کی اولاد کا شماراہل کتاب میں کیسے ہوسکتاہے؟ والظاھر ان الغلاۃ من الروافض المحکوم بکفر ھم لا ینفکون عن اعتقادھم الباطل فی حال اتیانھم بالشھادتین وغیرھما من احکام الشرع کالصوم والصلوٰۃ فھم کفار لا مرتدون ولا اھل کتاب ۔(رسائل ابن عابدین ص ۳۷۰ ، مظبوعہ سھیل اکیڈمی لاہور پاکستان)

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ تعالی جو اس موضوع پر کافی بصیرت رکھتے تھے اورانہوں نے ردقادیانیت پر کئی رسائل تصنیف فرمائے ہیں وہ تحریر فرماتے ہیں:

 "ان تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے:

O جو شخص خود قادیانیت کی طرف مرتد ہوا وہ مرتد بھی ہے اور زندیق بھی۔

Oاس کی صلبی اولاد بھی اپنے والدین کے تابع ہونے کی وجہ سے حکماً مرتد ہے اور زندیق بھی ۔

Oاس کی اولاد کی اولاد مرتد نہیں  بلکہ خالص زندیق ہے ۔

Oمرتدا ور زندیق دونوں  واجب القتل ہیں  ، دونوں  سے مناکحت باطل اور دونوں  کا ذبیحہ حرام اور مردار ہے ، اس لئے کسی قادیانی کا ذبیحہ کسی حال میں  حلال نہیں"(رسالہ قادیانی ذبیحہ ص۲۴،ص۲۵ شائع کردہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ پاکستان)

       جن حضرات نے قادیانیوں کی اولادکو اہل کتاب کے درجے میں قرار دیکران کے ذبیحہ کو حلال کہاہے وہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہے اور اس رائے پر کوئی دلیل نہیں ، اورنہ ہی جمہورحضرات نے اس رائے کی موافقت کی ہے،ممکن ہے کہ ان حضرات کو قادیانی مذہب کی حقیقت سمجھنے میں اشکال پیش آیا ہواوراس کی وجہ یہ  ہوسکتی ہے کہ چونکہ قادیانی تلبیس سے کام لیتے ہیں اورمسلمانوں کے سامنے اپنے اصل عقائد کا اظہارنہیں کرتے، بلکہ اپنی تقریروں اورتحریروں میں اپنے کو مسلمان باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ ان کے اورمسلمانوں کے درمیان کوئی بڑا فرق نہیں ہے بس ذراسا اختلاف ہے کہ مسلمانوں کا مہدی آنے والاہے اورقادیانیوں کا آچکا ہےتو اس سےعوام اوران خواص کو جنہوں نے قادیانی لٹریچرگہرائی سے مطالعہ نہیں کیا اورانہیں قادیانیوں سے گفتگوکا موقع بھی نہیں ملااشکال واشتباہ ہوجاتاہے اوروہ تذبذب کا شکارہوجاتے ہیں ،لیکن جن حضرات نے قادیانی لٹریچرکا بغورمطالعہ کیا اورانہیں قادیانیوں کےساتھ گفتگوکا موقع ملا ان کے ہاں یہ حقیقت آفتابِ  نصف النہار کی طرح روشن ہوجاتی ہےکہ

O قادیانیت ،اسلام کے متوازی ایک مستقل دین ومذہب ہے ،اسلام اوراہل کتاب کے مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

O قادیانی نبوت،محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ایک نئی متوازی نبوت ہے ۔

O قادیانیوں کے نزدیک محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ اورشریعت منسوخ ہیں اورنبوت محمدیہ صلی اللہ کو ماننے اورمحمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے سب کافرہیں ۔

                 اس لیے اسلام اورقادیانیت کا اختلاف چند مسائل یا نکات کا اختلاف نہیں ،بلکہ قادیانیت نے نبوت محمدیہ کے بالمقابل ایک نئی نبوت ،شریعت محمدی کے مقابلے میں ایک نئی شریعت اوراسلام کے مقابلے میں ایک نیادین گھڑا ہے ۔

لہذاجوحکم مسیلمہ کذاب کے ماننے والوں کا تھا وہی  مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والوں کا ہے، ان کےساتھ رشتہ ناطہ کے جائز ہونے اورذبیحہ کے حلال ہونے کا سوال  ہی خارج از بحث ہے ۔

حضرت مولانامفتی کفایت اﷲ صاحبؒ نےاگرچہکفایت المفتی قدیم ۱/ ۳۶۵؍ اور جدید ۱/ ۴۶۸؍ میں اپنا رجحان اسی طرف(قادیانیوں کی اولادکو اہل کتاب کے درجے میں قرار دیکران کے ذبیحہ کو حلال ہونے کی طرف) ظاہر فرمایا ہے؛ لیکن یہ صرف حضرت کی اپنی ذاتی رائے ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، اسی لیے حضرت کی اس رائے سے دوسرے بڑوں نے اتفاق نہیں کیا ؛ لہٰذا قادیانیوں کی صلبی اولاد بھی قادیانیوں کی طرح مرتد اورزندیق ہیں،البتہ ان کی اولاد کی اولادمرتد نہیں،بلکہ خالص زندیق اورکافرہیں،لیکن بہرحال ان کی کسی بھی نسل پر اہلِ کتاب کاحکم لگانامحلِ نظرہے اوران کا ذبیحہ بہرصورت حرام ہے۔ (دیکھیے حاشیہ کفایت المفتی جدید ۱/ ۴۶۸، فتاوی رحیمیہ زکریا ۱/ ۱۹۶، فتاوی حقانیہ زکریا ۴/ ۳۴۲، آپ کے مسائل اور ان کا حل زکریا ۲/ ۱۱۷، احسن الفتاوی ۶/ ۳۵۹)

اس سلسلے میں ’’بزازیہ‘‘ کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:

یجب الإیمان بالأنبیاء علیہم السلام بعد معرفۃ معنی النبي (وقولہ) وأما الإیمان بسیدنا علیہ الصلاۃ والسلام، فیجب بأنہ رسولنا في الحال وخاتم الأنبیاء والرسل، فإذا آمن بأنہ رسول ولم یؤمن بأنہ خاتم الرسل لاینسخ دینہ إلی یوم القیامۃ لا یکون مؤمنا۔ (بزازیۃ علی الہندیۃ ۶/ ۳۲۷)

       جہاں تک اس شبہہ کاتعلق ہے کہ جب تمام قادیانی زندیق ہیں اوراسلام میں زندیق اورمرتدکے وجود کو برداشت نہیں کیاجاتااوراس کی سزا قتل ہے تو پھرکیوں انہیں غیرمسلم اقلیت قراردیکر ان کے جان ومال کی حفاظت کا ذمہ دیاجاتاہے، شرعاً یہ کیسے جائز اوردرست ہوسکتاہے ؟  توبعض اکابرنے اس کاجوجواب دیاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ اصلاً تو یہ واقعةً زندیق ہیں جن کی سزا قتل ہے،لیکن ممکن ہے کہ ان میں ایسے لوگ بھی مل گئے ہوں جوناواقف اور غافل ہوں اورپھران کی تعداداس طرح بڑھتی گئی ہو،اب اگران پرزندیق کی اصل سزاجاری کرنے کے بجائےانہیں اسلامی مروّت اوراحسان کے تحت ایک غیر مسلم اقلیت کے طورپربرداشت کرلیاجائے تو ہوسکتاہے انہیں پھر سے اسلام  اورقادیانیت کےمطالعہ کرنے کا موقع ملے اورکچھ لوگ ان میں سے پھر  اسلام میں لوٹ آئیں۔ لیکن یہ رعایت ان کے ساتھ اسی حد تک برتی جاسکتی ہے کہ وہ حارحیت نہ کریں،قانون کو تسلیم کریں،مسلمانوں میں اپنے عقائدونظریات کی تبلیغ نہ کریں ، شعائرِ اسلام میں دخل نہ دیں اوراپنی مذہبی آزادی کو اپنے گھروں اوراپنے حلقوں تک محدود رکھیں ،اگروہ ان باتوں کی پابندی نہ کریں تو پھرحکومتِ وقت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان پر ان کی اصلی سزا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے مرتدین کو دی تھی جاری کرے۔

حوالہ جات
ويبطل منه النكاح والذبيحة والصيد والشهادة والارث.( الدر المختار1/393)
لاتحل ذبيحة غير کتابی من وثني و مجوسی و مرتد(المصدر السابق ۳۳۱۱۹ کتاب الذبائح، ط: مکتبة زکریا )
اعلم ان تصرفات المرتد علی اقسام: ......باطل بالاتفاق كالنكاح والذبيحة، لانه يعتمد الملة ولا ملة له.                                                                                                                                                                                                                                   (الهدایة ۳\۵۸۷، کتاب السیر ،مکتبة الاتحاد دیوبند) 
ولا تؤكل ذبيحة المجوسي والمرتد، لانه لاملة له، فانه لا يقر على ما انتقل اليه.
 (المصدر السابق،۲۱۸۱، کتاب الذبائح)
وان كان مع اعترافه بنبوة النبي صلی اللہ علیہ وسلم  واظهاره شعائر الإسلام يبطن عقائدهی کفر بالاتفاق، خض باسم الزنديق۔ (شرح المقاصد3/404 ،ط: دار الکتب العلمیة بیروت) 
       يعلم مما هنا حكم الدروز والتيامنة  فإنهم في البلاد الشامية يظهرون الإسلام والصوم والصلاة مع أنهم يعتقدون تناسخ الأرواح وحل الخمر والزنا وأن الألوهية تظهر في شخص بعد شخص ويجحدون الحشر والصوم والصلاة والحج، ويقولون المسمی به غير المعنى المراد ويتكلمون في جناب نبينا -صلی الله عليه و سلم - كلمات فظيعة. وللعلامة المحقق عبد الرحمن العمادي فيهم فتوی مطولة، وذكر فيها أنهم ينتحلون عقائد النصيرية والإسماعيلية الذين يلقبون بالقرامطة والباطنية الذين ذكرهم صاحب المواقف. ونقل عن علماء المذاهب الأربعة أنه لا يحل إقرارهم في ديار الإسلام بجزية ولا غيرها، ولا تحل مناكحتهم ولا ذبائحهم، وفيهم فتوى في الخيرية أيضا فراجعها.
(ردالمحتار ۳۸۲۱۲، ۷ ۳۸، کتاب الجهاد باب المرتد)
 (زوجان ارتدا ولحقا فولدت) المرتدة (ولدا وولد له) أي لذلك المولود (ولد فظهر عليهم) جميعا (فالولدان فئ) كأصلهما (و) الولد (الاول يجبر) بالضرب (على الاسلام) وإن حبلت به ثمة لتبعيته لابويه (لا الثاني) لعدم تبعية الجد على الظاهر فحكمه كحربي.(  الدر المختار للحصفكي - (ج 4 / ص 443)
( قوله فالولدان فيء كأصلهما ) هذا ظاهر في الولد ، فإن أمه تسترق والولد يتبع أمه في الحرية والرق .أما ولد الولد فلا يتبعها لأنه لا يتبع الجد كما يأتي وهذه جدة في حكم الجد ، ولا أباه لأن أباه تبع والتبع لا يستتبع غيره كما يأتي .وأجيب بأنه تبع لأمه الحربية ، وفيه أنه قد تكون أمه ذمية مستأمنة ، فالمناسب كون العلة في كونه فيئا أن حكمه حكم الحربي كما يأتي فافهم ( قوله والولد الأول يجبر بالضرب ) أي والحبس نهر أي بخلاف أبويه فإنهما يجبران بالقتل ( قوله وإن حبلت به ثمة ) أشار إلى أنها لو حبلت به في دار الإسلام يجبر بالأولى .وبه يظهر أن تقييد الهداية بالحبل في دار الحرب غير احترازي ، أفاده في البحر ((قوله لتبعيته لأبويه ) أي في الإسلام والردة وهما يجبران فكذا هو وإن اختلفت كيفية الجبر ط ( قوله لعدم تبعية الجد ) ولعدم تبعيته لأبيه لأن ردة أبيه كانت تبعا والتبع لا يستتبع خصوصا ، وأصل التبعية ثابتة على خلاف القياس لأنه لم يرتد حقيقة ولذا يجبر بالحبس لا بالقتل ، بخلاف أبيه.
 ( رد المحتار  ج 16 / ص 362)
 ( زوجان ارتدا فلحقا ) بدارهم الأولى بالواو ( فولدت المرأة ثم ولد للولد فظهر عليهم فالولدان ) أي ولدهما وولد ولدهما ( فيء ) لأن المرتدة تسترق فكذا ولدها لأنه يتبع الأم ( ويجبر الولد ) أي ولدهما  (على الإسلام ) تبعا لأبويه ( لا ولده ) أي لا يجبر ولد الولد على الإسلام بالإجماع إلا في رواية الحسن فإنه يجبر أيضا وهذا بناء على أن ولد الولد لا يتبع الجد في الإسلام في ظاهر الرواية ويتبعه في رواية .
                                              ( مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ج 4 / ص 391)                                     
عن المهلب قال التألف إنما كان في أول الإسلام إذا كانت الحاجة ماسة لذلك لدفع مضرتهم فأما إذ على الله الإسلام فلا يجب التألف إلا ان تنزل بالناس حاجة لذلك فلإمام الوقت ذلك .
( فتح الباري شرح صحيح البخاري  ج 27 / ص 492)
وأما المرتدون فيوادعهم الإمام حتى ينظر في أمرهم لأن الإسلام مرجو منهم فجاز تأخير قتالهم طمعا في إسلامهم.( الهداية   ج 1 / ص 381)
 ( قوله : والمرتدين بلا مال ، وإن أخذ لم يرد ) أي نصالح المرتدين حتى ننظر في أمورهم ؛ لأن الإسلام مرجو منهم فجاز تأخير قتالهم طمعا في إسلامهم ولا نأخذ عليه مالا ؛ لأنه لا يجوز أخذ الجزية منهم .
( البحر الرائق شرح كنز الدقائق ج 13 / ص 321)
قال الاسماعيلي الترجمةفي ترك قتال الخوارج والحديث في ترك القتل للمنفرد والجميع إذاأظهروا رأيهم ونصبوا للناس القتال وجب قتالهم وانما ترك النبي صلى الله عليه وسلم قتل المذكور لانه لم يكن أظهر ما يستدل به على ماوراءه فلو قتل من ظاهره الصلاح عند الناس قبل استحكام أمر الاسلام ورسوخه في القلوب لنفرهم عن الدخول في الاسلام وأما بعده صلى الله عليه وسلم فلا يجوز ترك قتالهم إذا هم أظهروا رأيهم وتركوا الجماعةوخالفوا الائمة مع القدرة على قتالهم قلت وليس في الترجمة ما يخالف ذلك إلا انه أشار إلى أنه لو اتفقت حاله مثل حالة المذكور فاعتقدت فرقة مذهب الخوارج مثلا ولم ينصبوا حربا أنه يجوز للامام الاعراض عنهم إذا رأى المصلحة في ذلك كأن يخشى أنه لو تعرض للفرقة المذكورة لاظهر من يخفي مثل اعتقادهم أمره وناضل عنهم فيكون ذلك سببالخروجهم ونصبهم القتال للمسلمين مع ما عرف من شدة الخوارج في القتال وثباتهم وإقدامهم على الموت.
(فتح الباري لابن حجر - ج 8 / ص 13)
وأما الإیمان بسیدنا علیہ الصلاۃ والسلام فیجب بأنہ رسولنا في الحال، وخاتم الأنبیاء والرسل، فإذا آمن بأنہ رسول ولم یؤمن بأنہ خاتم الأنبیاء لا یکون مؤمنا. (مجمع الأنہر 2/ 506)
(وراجع ایضا " فتاوی قاسمیہ" 24/ 300،و"فتاوی ختم نبوت للیشخ سعید احمد جلال پوری"و"آپ کے مسائل اور ان کا حل "1/199)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  4/صفر/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب