021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلف مواقع پر بیوی سے بولے گئے مختلف الفاظ کنایہ کا حکم
74073طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میں نے اپنی سابقہ زوجہ کو مورخہ 6جولائی 2021 کو ایک فون کال کے دوران کلمہ طیبہ پڑھ کر یہ کہا کہ میرے دل میں آپ کے لیے اب کوئی جگہ نہیں بچی اور میں اب  آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا،میں نے مزید کہا کہ میں آپ کے ساتھ حدود اللہ کی پاسداری نہیں کرسکتا،اس وقت بھی میری مرضی خاتون کے ساتھ اس رشتہ ازدواج کو ختم کرنے کی تھی اور موضوع بحث میری طرف سے خاص طور پر یہی تھا کہ یا تو ہم تنسیخ نکاح کا سوچیں یا خلع لے لیں،یا میں طلاق دے دوں۔

اسی ضمن میں میری 16جولائی 2021 کو دوبارہ فون کال پر بات ہوئی،میں نے اس سے اپنی 6جولائی کی تجویز کے بارے میں پوچھا کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا،اس وقت وہ کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچی تھی اور بالآخر ہم دونوں کے درمیان یہ طے پایا کہ پندرہ دن مزید سوچنے کے بعد خاتون 31 جولائی 2021 تک مذکورہ بالا تین باتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے مجھے بتادے،ورنہ 31 جولائی 2021 کے بعد ہمارا رشتہ ختم ہوجائے گا۔

مندرجہ بالا دونوں واقعات کی روشنی میں میں یہی سوچ رہا تھا کہ ہم دونوں کے درمیان دو طلاقیں ہوچکی ہیں اور 19 اگست کی رات کو میں نے ایک خط لکھا،جس کے اختتام پر میں نے یہ بھی لکھا میں آج تمہیں مکمل طور پرمیرے اور تمہارے رشتے سے آزاد کرتا  ہوں،تاکہ تم اپنی آنے والی زندگی کو اپنے طریقے سے پرسکون اور بہتر طور پر گزار سکو،اس خط کو لکھتے وقت میری نیت خاتون کو تیسری اور آخری طلاق دینے کی تھی۔

اب میری علماء کرام سے یہ درخواست ہے کہ برائے مہربانی مجھے یہ بتائیں کہ کیا میں نے اپنی تینوں طلاقیں استعمال کرلیں؟ اور کیا میں اس وقت قانونی طور پر یو سی سے طلاق کا سرٹیفیکیٹ لینے کے لیے رجوع کرسکتا ہوں؟

تنقیح:سائل نے بتایا کہ آزاد کا لفظ ان کے عرف میں صرف طلاق کے لیے متعین نہیں ہے،بلکہ دیگر معانی کے لیے بھی بولا جاتا ہے،لیکن اس نے طلاق کی نیت سے بولا ہے۔

 

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔میرے دل میں آپ کے لیے اب کوئی جگہ نہیں بچی اور میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا، یہ جملے نہ طلاق کے صریح الفاظ پر مشتمل ہیں اور نہ کنایہ پر،اس لیے ان سے نیت کے باجود بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

2۔31 جولائی تک تین options میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے مجھے بتادیں،ورنہ 31 جولائی 2021 کو ہمارا رشتہ ختم ہوجائے گا،اس جملے میں رشتہ ختم ہونا طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہے،چونکہ آپ نے یہ جملہ طلاق کی نیت سے بولا تھا اور اس طلاق کو 31 جولائی تک بیوی کی جانب سے جواب نہ ملنے پر معلق کیا تھا،اس لیے جب بیوی نے 31 جولائی تک کوئی جواب نہیں دیا تو اس کے ذریعے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔

3۔پھر 19 اگست کو خط میں آپ نے جو جملہ لکھا کہ میں آج تم کو مکمل طور پر میرے اور تمہارے رشتے سے آزاد کرتا ہوں اس سے دوسری طلاق بائن واقع ہوگئی،جس کے بعد آپ کے پاس تیسری اور آخری طلاق کا اختیار باقی ہے،لیکن بہتر یہ ہے کہ آپ تیسری طلاق نہ دیں،تاکہ بعد میں اگر کبھی دوبارہ ساتھ رہنے کا ارادہ بنے تو نکاح ممکن ہو۔

چونکہ موجود صورت میں آپ دو طلاقیں دے چکے ہیں،اس لیے ان کی بنیاد پر آپ یو سی سے طلاق نامے کے لیے رجوع کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (1/ 437):
"فلو كان هو أي المنوي المدلول عليه بالنية مما يتعلق بالأقوال كقوله أنت طالق وأنت حر إن شاء الله بطل لأن الطلاق أو العتق لا يتعلق بالنية بل بالقول، حتى لو نوى طلاقها أو عتقه لا يصح بدون لفظ".
"رد المحتار" (3/ 230):
"(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.
وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ،ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية، لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه".
"البحر الرائق " (3/ 328):
"وفي البزازية طلبت منه الطلاق فقال: لم يبق بيني وبينك عمل لم تطلق إلا أن ينوي به النكاح وينوي به إيقاع الطلاق فحينئذ يقع".
"الفتاوى الهندية "(1/ 375):
"ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى ولو قالت المرأة لزوجها لست لي بزوج فقال الزوج صدقت ونوى به الطلاق يقع في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في فتاوى قاضي خان".
"الدر المختار " (3/ 355):
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا".
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ": (ج 3 / ص 285) :
"( فإن وجد الشرط فيه ) أي في الملك بأن كان النكاح قائما أو كان في العدة (انحلت اليمين ووقع الطلاق ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب