021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ادھار چیز نقد کی بنسبت مہنگی بیچنے کا حکم
74081خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

اگر کوئی شخص کہے کہ اسے 200 بوری کھاد چاہیے، جس کی نقد قیمت 1800 روپے ہے۔ لیکن خریدار پیسے 4 ماہ بعد ادا کرے گا اور 4 ماہ بعد وہ فی بوری 300 روپے اضافی دے کر 2100 روپے کے حساب سے پیسے ادا کرے گا۔ اور اس بات پر وہ خود رضامند ہو تو کیا اس طرح اضافی رقم لینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں کھاد کی بوری ادھار، نقد کی بہ نسبت زیادہ قیمت پر بیچنا مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی خلاف ورزی ہوگی تو معاملہ جائز نہیں ہوگا۔ (الف)۔۔۔ معاملہ کرتے وقت یہ بات واضح طور پرطے ہوجائے کہ ادھار قیمت پر معاملہ ہورہا ہے یا نقد۔ لہٰذا اگر بائع نے نقد اور ادھار دونوں قیمت بتادئیے، لیکن بائع اور مشتری کے ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے اس بات کی تعیین نہ ہو کہ قیمت ادھار ہوگی یا نقدتو پھر یہ معاملہ ناجائز ہوگا۔ (ب)۔۔۔ قیمت کی ادائیگی کا ایک متعین وقت مقرر ہو۔ اگر قیمت کی ادائیگی کا ایک متعین وقت مقرر نہ ہو تو یہ معاملہ فاسد ہوگا۔ (ج)۔۔۔ قیمت مقرر ہونے کے بعداس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو،بالخصوص بعد میں مدت میں اضافہ یا تاخیر کی وجہ سے نہ قیمت میں اضافہ ہواور نہ جرمانے کے نام پرزائد رقم وصول کی جائے کہ یہ سود ہے۔

حوالہ جات
الهدایة (3/58-22):
قال ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما لإطلاق قوله تعالى { وأحل الله البيع } وعنه عليه الصلاة والسلام أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد فهذا يطالبه به في قريب المدة وهذايسلمه في بعيدها………..الخ قال: ومن اشترى غلاما بألف درهم نسيئة فباعه بربح مائة ولم يبين فعلم المشتري فإن شاء رده وإن شاء قبل لأن للأجل شبها بالمبيع ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل……الخ
بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة(1/14-12):
ومن هنا ینشأ السوال: هل یجوز أن یکون الثمن المؤجل أکثر من الثمن الحال؟.وقد تکلم الفقهاء فی هذه المسألة قدیما و حدیثاً؛ فذهب بعض العلماء إلی عدم جوازه، لکون الزیادة عوضاً عن الأجل، وهو الربا، أوفیه مشابهة للربا، وهذالمذهب مروی عن زین العابدین علی بن الحسین، والناصر والمنصور بالله ،والهادویة، کمانقل عنهم الشوکانی رحمه الله. أما الأیمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثین، فقد أجازوا البیع المؤجل بأکثر من سعر النقد، بشرط أن یبت العاقدان بأنه بیع مؤجل بأجل معلوم، وبثمن متفق علیه عند العقد، فأما إذا قال البائع: أبیعك نقداً بکذا ونسیئة بکذا، وافترقا علی ذٰلك، دون أن یتفقا علی تحدید واحد من السعرین، فإن مثل هذا البیع لایجوز، ولکن إذا عین العاقدان أحد الشقین فی مجلس العقد، فالبیع جائز………….…. و لکن اختلاف الأثمان هذا إنما یجوز ذکرها عند المساومة، و أما عقد البیع فلا یصح إلا إذا اتفق الفریقان علی أجل معلوم و ثمن معلوم، فلا بد من الجزم بأحد الشقوق المذکورة فی المساومة. فلو قال البائع مثلا: إن أدیت بالثمن بعد شهر فالبضاعة بعشرة، و إن أدیته بعد شهرین فهو بإثنی عشر، و إن أدیته بعد ثلاثة أشهر فهو بأربعة عشر، و افترقا علی ذلك بدون تعیین أحد هذه الشقوق زعما من المشتری أنه سوف یختار منها ما یلائمه فی المستقبل؛ فإن هذا البیع حرام بالإجماع و یجب علی العاقدین أن یعقداه من جدید بتعیین أحد الشقوق واضحا.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی 5/صفر المظفر /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب