03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زوجہ،بھتیجے اورتین بھتیجوں میں میراث کی تقسیم
74087وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میراشوہر علی محمد خان جو محکمہ تعلیم میں ایک (جے وی ٹی) استادکی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہاتھاوہ دورانِ ملازمت فوت ہوا ہے،ہماری کوئی اولاد نہیں،میرے شوہرکا ایک بھائی محمدموسی ولد غازی خان(سرکاری ملازم لائیوسٹاک) میرے شوہر سے پہلے ہی فوت ہوچکاتھا ،جبکہ میرے ساس اورسسر یعنی میرے شوہر علی محمد وردیورمحمد موسی کے والدین ان دونوں کی وفات سے کافی عرصہ پہلے فوت ہوچکے تھے،دونوں بھائی اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرکے الگ الگ گھر میں رہائش پزیرتھے،شوہر کی وفات کے بعدسے میں اپنے بھائیوں کے گھر رہائش پذیر ہوں اورمیرا نان ونفقہ اورتمام اخراجات میرے بھائی اداکررہے ہیں۔

اب مسئلہ یہ پوچھناہےکہ

میرے شوہرکی پنشن اورجائیداد مین میرا(بی بی خدیجہ زوجہ علی محمد)اورمیرے شوہرکے بھتیجے پیرمحمد ولد محمد موسی اورتین بھتیجیوں  بی زہرہ بنت محمدموسی ، بی بی فیروزہ  بنت محمدموسی اوراختربی بی  بنت محمدموسی کا کتناحصہ بنتاہے ؟

ترکہ میں درجِ ذیل اشیاء شامل ہیں :

1۔ ماہانہ پنشن                2۔ یکمشت پنشن            3۔ گریجویٹی                4۔بینویلنٹ فنڈ

5۔گروپ انشورنس        6۔جی پی فنڈ                 7۔ بینک میں موجود رقم (جوتنخواہ سے بچاتاتھا)

8۔دورانِ ملازمت فوتگی پرمالی معاونت                    9۔جائیداد زمین وغیرہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ماہانہ پنشن، یکمشت  پنشن ، بینوولنٹ فنڈ، گروپ انشورنس اوردوان ملازمت فوتگی پر  مالی معاونت یہ سب فنڈزچونکہ تنخواہ  کا  جزو نہیں  بلکہ حکومت یا ادارے کی طرف سے ملنے والا انعام و تبرع ہے، لہذا یہ فنڈز میراث کی تقسیم سے مستثنی ہونگے، حکومت یا ادارہ نے جس کے نام  جاری کئے ہیں وہی اس کا حق دارہوگا  دیگر ورثاء اس میں شریک نہیں ہوں گے۔

بینک میں موجود رقم اورجائیداد زمین وغیرہ میں وراثت جاری ہوگی،اسی طرح گریجویٹی فنڈ ، جی پی فنڈمیں بھی میراث جاری ہوگی، اس لیے کہ ان میں تنخواہ کا جو حصہ کاٹ کر جمع کیا جاتا ہے، اس پر مسلسل ملازم کا حق رہتا ہے اور اس کا مطالبہ وہ لازماً اپنی زندگی میں کرسکتا ہے، اس لیے اس میں شامل ہونے والی رقم اس کا لازمی مالی حق ہے جو اس کے ترکے میں شامل ہے اور اگر وہ اس کی وفات کے بعد ملے تو یہ تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

مرحوم علی محمدکا ترکہ ورثہ میں تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات، قرض اوروصیت کی علی الترتیب ادائیگی کے بعد اگرمرحوم کےانتقال کے وقت صرف یہی لوگ ہوں جوسوال میں مذکورہیں توکل منقولہ ،غیرمنقولہ ترکہ کو4برابر حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوی(خدیجہ) کو 1حصہ یعنی %25 اورمرحوم کے بھتیجے(پیرمحمد)کو3حصےیعنی %75دیئے جائیں،جبکہ بھتیجیاں یعنی بی زہرہ۔ بی بی فیروزہ اوراختربی بی مرحوم  علی محمدکی میراث سے محروم ہوں گی ۔

حوالہ جات

قال في كنز الدقائق :

"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..."  (ص:696, المكتبة الشاملة)

قال اللہ تعالی :

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ [النساء/12]

فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد"(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/769 ط:دار الفکر-بیروت)

وفی البحر الرائق (8/ 567)

 والعصبة أربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الأقرب.

نهاية الزين شرح قرة العين - (ج 2 / ص 59)

واعلم أن ابن الأخ وإن نزل لا يعصب بنت الأخ التي في درجته ولا الأنثى التي فوقه من بنات الأخ إجماعاً لأنهما من ذوي الأرحام.

)"المادة (2 9 0 1) - (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم) كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين - وارثيه، على حسب حصصهم الإرثية بموجب علم الفرائض أو بين الموصى لهم بموجب أحكام المسائل المتعلقة بالوصية كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين ورثته على حسب حصصهم الإرثية أو بين الموصى لهم بموجب الوصية (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام3/55 ط:دار الجیل)
 

"(يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما"(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/773 ط:دار الفکر-بیروت)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 5/2/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب