021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض پر اضافہ اور اس کے متبادل ‘بیعِ تورق’ کا حکم
74083خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کسی شخص کو نقد رقم کی ضرورت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے 200 بوری کھاد کے پیسے مل جائیں۔ وہ یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ کھاد کے ڈیلر سے بات کرتا ہے کہ 200 بوری کھاد کے جو پیسے بنتے ہیں، وہ اس کے لیے اتنی رقم کے موبائل خریدے۔ مثلا اگر 200 بوری کھاد کی رقم 350000 بنتی ہے تو وہ اتنی رقم کے موبائل خریدے۔ چنانچہ کھاد کا ڈیلر اس کے ساتھ موبائل کی مارکیٹ میں جاتا ہے، یہ شخص جس دکان دار سے موبائل خریدنا چاہتا ہے، موبائل خرید لیتا ہے، اور کھاد کا ڈیلر اس کی طرف سے قیمت دیدیتا ہے۔ خریداری اسی شخص کی ہوتی ہے، کھاد کے ڈیلر کی نہیں، وہ صرف اس کی طرف سے قیمت ادا کرتا ہے۔  اس کے بعد وہ شخص وہی موبائل فون اس دکان والے کو واپس کر کے نقد 350000 رقم وصول کر لیتا ہے؛ کیونکہ اس نے دکان دار سے پہلے سے بات کی ہوتی ہے۔ کھاد والے کا پھر اس معاملے سے مزید کوئی تعلق نہیں ہوتا۔  اور یہ شخص 200 بوری کھاد کے جو 350000 روپے بنتے ہیں وہ کھاد کے ڈیلر کو 3 ماہ بعد واپس کرے گا اور 300 روپے فی بوری اضافی ادا کرے گا یعنی 2100 روپے فی بوری ادا کرے گا۔ اور اس بات پر وہ شخص خود راضی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے نفع حاصل کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ معاملہ شرعا ناجائز ہے؛ کیونکہ کھاد کا ڈیلر اس شخص کی طرف سے جو ادائیگی کرتا

   ہے وہ اس شخص کے ذمے اس کا قرض بن جاتا ہے، پھر کھاد کا ڈیلر 3 ماہ بعد اس سے اپنا یہ قرض اضافہ

کے ساتھ وصول کرتا ہے۔ اور قرض پر مشروط اضافہ سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے جس سے اجتناب لازم ہے۔ سود رضامندی سے جائز نہیں ہوتا۔  اس معاملے کی متبادل جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ:

کھاد کا ڈیلر پہلے اپنے لیے موبائل خرید کر اپنے موبائلوں کو اس دکان دار کے دیگر موبائلوں سے الگ کردے اور ان پر قبضہ کرلے، کھاد کے ڈیلر اور دکان دار کے اس معاملے سے اس شخص کا کوئی تعلق نہیں ہوگا جس کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد کھاد کا ڈیلر جتنا نفع لینا چاہتا ہے، اتنے نفع کے ساتھ وہ موبائل اس شخص کو ادھار بیچ دے اور بیع میں ادھار قیمت کی ادائیگی کے لیے ایک متعین مدت/ تاریخ مقرر کر لے۔ اگر کھاد کا ڈیلر اپنے لیے باقاعدہ موبائل نہ خریدے، صرف کاغذی کاروائی کرے، یا موبائل تو خریدے لیکن ان پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی اس شخص کو بیچ دے، یا ادھار کی مدت معلوم نہ ہو تو ان صورتوں میں معاملہ ناجائز ہوجائے گا۔

 جب یہ شخص کھاد کے ڈیلر سے اس کے موبائل ادھار خرید کر ان پر قبضہ کرلے تو پھر انہیں اپنی رضامندی سے اوپن مارکیٹ میں کھاد کے اس ڈیلر (جس سے اس نے موبائل ادھار مہنگے خریدے ہوں) اور اس کے وکیل کے علاوہ کسی کو بیچ کر نقد رقم حاصل کرے۔ کھاد کے اس ڈیلر یا اس کے وکیل کو واپس بیچنا جائز نہیں۔  جس دکان دار سے موبائل خریدے گئے ہوں اس کو بھی بیچ سکتا ہے، بشرطیکہ اس کو بیچنا پہلے سے شرط یا عرف کی وجہ سے اس طرح طے نہ ہو کہ وہ موبائل اسی کو بیچنے پر مجبور ہو، اور کسی اور کو بیچنے یا اپنے پاس رکھنے کا اسے اختیار ہی نہ ہو۔ اسی طرح ادھار اور نقد کے یہ معاملات  الگ الگ ہونا ضروری ہے، ایک معاملے کو دوسرے سے مشروط کرنا جائز نہیں۔  

یہ متبادل فقہی اصطلاح میں "تورق" کہلاتا ہے۔ اور "تورق" اصلًا صرف حرام سے بچنے کی ایک تدبیر ہے، لیکن اسے مستقل کاروبار بنانا شرعا پسندیدہ نہیں۔ اگر اس شخص کو ذاتی ضروریات کے لیے نقد رقم کی ضرورت ہو اور وسعت ہو تو قرض دینا اولیٰ اور باعثِ ثواب ہے، اور اگر اسے کاروباری مقاصد کے لیے نقد رقم کی ضرورت ہو تو پھر حسبِ موقع شرکت، مضاربت، بیعِ استصناع یا بیعِ سلم (اگلے سوال کے  جواب میں اس کی تفصیل آرہی ہے) وغیرہ میں سے کوئی عقد کرنا چاہیے۔  

حوالہ جات
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (2/67-46):
التورق فی اصطلاح الفقهاء: أن یشتری المرء سلعة نسیئة، ثم یبیعها نقدًا لغیر البائع بأقل مما اشتراها به؛ لیحصل علی النقد………….. و حاصل ما ذکر نا أن التورق عملیة جائزة فی نفسها، و غاية ما فی الباب -کما قال ابن الهمام ؒ -  أنه خلاف الأولی إن کان البائع یعلم أن المشتری محتاج إلی نقود لأغراضه الشخصية،  ولا یشتری السلعة بثمن غال إلا بسبب حاجته إلیها، فلو کان فی مکنة البائع أن یقرضه النقود التی یحتاج إلیها فلا شك أنه الأفضل والأکثر أجرا، فترک الإقراض فی هذه الحالة واللجوء إلي بيع السلعة بثمن أکثر خلاف الأفضل........ و کذلك إن کان البائع یعرف أن المشتری المتورق یحتاج إلی سیولة نقدیة لأغراضه التجاریة، و مقصوده الحصول علی التمویل؛ فالأفضل للبائع أن یعقد معه الشرکة أو المضاربة لکونهما طریقین مفضلین للتمویل، فالعدول عنهما إلی التورق خلاف الأولی کلما کان الطریق المفضل میسرًا، و لکن لا سبیل إلی القول بأنه یجب علیه أن یعقد معه الشرکة أو المضاربة و لا یدخل فی التورق.
ولکن ما ذکرنا من جواز التورّق عند جمهور الفقهاء انما یتأتی فی التورّق الذي هو عبارة عن عمیلتین بسیطتین: إحداهما شراء السلعة بالأجل، و ثانیتهما بیعها فی السوق عاجلا. و التورق الذی تصوره الفقهاء و حکموا بجوازه هو أن السلعة موجودة عند البائع مملوکة له ملکًا حقیقیًا، ثم تنتقل ملکیتها إلی المشتری بحکم البیع الحقیقی الذی تتبعه جمیع أحکام البیع. و لکن إذا اقترنت بهذه العملیة ملابسات أخری، فلا یبعد أن یتغیر الحکم، إما إلی عدم الجواز بتاتًا، أو إلی الکراهة، أو إلی ازدیاد بعدها عن العملیات المفضلة. ………… فإن اشتری المتورق البضاعة نیابة عن المصرف، ثم اشتراه لنفسه بدون أن یرجع إلی المصرف و ینشئ معه البیع بعقد مستقل، فإن هذه العملیة لا تجوز أصلا؛ لأن الوکیل لا یتولی طرفی البیع، و لأنه یجب الفصل بین الضمانین فی البضاعة. و أما إذا رجع الوکیل المتورق إلی المصرف بعد شراء البضاعة، ثم عقد معه البیع بإیجاب و قبول، فالعقد لیس باطلًا، ولکنه لا یخلو من کراهة؛ لأنه یقرب العقد إلی الصوریة……….. و هناك صورة أخری للتوکیل، و هی أن المشتری المتورق بعد شراء البضاعة من البائع یوکل نفس البائع بأن یبیع البضاعة فی السوق نیابة عن المتورق…… و إن هذا التوکیل إن کان مشروطًا فی البیع الأول، بأن زیدًا اشتری البضاعة من المصرف بشرط أن یقوم ببیعها فی السوق،  فإن هذا البیع فاسد؛ لأنه بیع بشرط التوکیل، و مثل ذلك العقد المشروط فاسد عند جمهور الفقهاء. أما إذا کان عقد البیع خالیا من هذا الشرط ثم وکل زید المصرف بعقد مستقل فلیس العقد فاسدا، و لکنه لا یخلو من کراهة…… الخ 
المعاییر الشرعیة (767):
 .2 تعریف التورق و تمییزه عن بیع العینة:
التورق: شراء سلعة بثمن آجل مساومة أو مرابحة ثم بیعها إلی غیر من اشتریت منه للحصول علی النقد بثمن حال. أما العینة: فهی شراء سلعة بثمن آجل و بیعها إلی من اشتریت منه بثمن حال أقل.
4. ضوابط صحة عملیة التورق:
4/5 وجوب أن یکون بیع السلعة (محل التورق) إلی غیر البائع الذی اشتریت منه بالأجل (طرف ثالث)؛ لتجنب العینة المحرمة، و ألا ترجع إلی البائع بشرط أو مواطأة أو عرف.  
4/6 عدم الربط بین عقد شراء السلعة بالأجل و عقد بیعها بثمن حال، بطریقة تسلب العمیل حقه فی قبض السلعة، سواء کان الربط بالنص فی المستندات، أم بالعرف، أم بتصمیم الإجراءات.
فتح القدير (7/ 211):
قوله (ومن كفل عن رجل بألف بأمره فأمره) أي فأمر الكفيلَ (الأصيلُ أن يتعين عليه حريرا) أي أن يشتري له حريرا بطريق العينة، وهو أن يشتري له حريرا بثمن هو أكثر من قيمته ليبيعه بأقل من ذلك الثمن لغير البائع، ثم يشتريه البائع من ذلك الغير بالأقل الذي اشتراه به، ويدفع ذلك الأقل إلى بائعه، فيدفعه بائعه إلى المشتري المديون، فيسلم الثوب للبائع كما كان ويستفيد الزيادة على ذلك الأقل؛ وإنما وسطا الثاني تحرزا عن شراء ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن…..….. ومن صور العينة: أن يقرضه مثلا خمسة عشر ثم يبيعه ثوبا يساوي عشرة بخمسة عشر ويأخذ الخمسة عشرالقرض منه فلم يخرج منه إلا عشرة وثبت له خمسة عشر. ومنها: أن يبيع متاعه بألفين من المستقرض إلى أجل ثم يبعث متوسطا يشتريه لنفسه بألف حالة ويقبضه ثم يبيعه من البائع الأول بألف ثم يحيل المتوسط بائعه على البائع الأول بالثمن الذي عليه وهو ألف حالة فيدفعها إلى المستقرض ويأخذ منه ألفين عند الحلول.
 قالوا: وهذا البيع مكروه؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إذا تبايعتم بالعين وتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم………………. ثم الذي يقع في قلبي أن ما يخرجه الدافع إن فعلت صورة يعود فيها إليه هو أو بعضه كعود الثوب أو الحرير في الصورة الأولى وكعود العشرة في صورة إقراض الخمسة عشر فمكروه، وإلا فلا كراهة إلا خلاف الأولى على بعض الاحتمالات، كأن يحتاج المديون فيأبى المسئول أن يقرض بل أن يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشر إلى أجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة، ولا بأس في هذا؛ فإن الأجل قابله قسط من الثمن، والقرض غير واجب عليه دائما، بل هو مندوب؛ فإن تركه بمجرد رغبة عنه إلى زيادة الدنيا فمكروه، أو لعارض يعذر به فلا، وإنما يعرف ذلك في خصوصيات المواد، ومالم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا، وإلا فكل بيع بيع العينة.
أیضا رد المحتار نقلًا عن فتح القدیر(5/ 326):
قال فی الفتح ما حاصله: إن الذی یقع فی قلبی….. اھ، و أقره فی البحر و النهر و الشرنبلالیة، و هو ظاهر، و جعله السید أبو السعود محمل قول أبی یوسف، وحمل قول محمد و الحدیث علی صورة العود.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

5/صفر المظفر /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب