021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نقد رقم لے کر واپس ادائیگی چاول میں کرنا اور بیعِ سلم کی شرائط
74084خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

اگر کوئی شخص ہم سے نقد رقم وصول کرتا ہے اور کہتا ہے کہ پیسے آپ کو چاول کی فصل کی صورت میں ادا کروں گا۔ مثلا وہ ہم سے 150000 روپے نقد وصول کرتا ہے، اور اس کے بدلے چاول کی فصل ادا کرے گا۔ ہم اس سے اپنا نفع اس طرح حاصل کرتے ہیں کہ ہم 150000 کی رقم کو فی بوری کھاد جو کہ 1800 روپے کی ہے، پر تقسیم کرتے ہیں، اور پھر اس سے 300 روپے فی بوری اضافی رقم وصول کرتے ہیں، مطلب وہ جو فصل ادا کرے گا وہ 2100 روپے کے حساب سے ادا کرے گا۔ کیا اس طرح نفع حاصل کرنا جائز ہے؟

 وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ اس صورت میں واپس چاول لینا ہی مقصد ہوتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب کوئی شخص آپ سے نقد رقم لے کر اس کے بدلے بعد میں چاول دینے کی بات کرتا  ہے تو یہ "بیعِ سلم" کا معاملہ ہے۔ بیعِ سلم اس بیع کو کہا جاتا ہے جس میں قیمت نقد ادا کی جاتی ہے، جبکہ مبیع (بیچی جانے والی چیز) بیچنے والے کے ذمے ادھار ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ اس شخص کو جو نقد رقم دیں گے وہ ان چاولوں کی قیمت ہوگی جو وہ بعد میں آپ کو دے گا۔ بیعِ سلم شرعًا جائز ہے، اور اس میں فریقین باہم رضامندی سے مبیع کی کوئی بھی قیمت طے کر سکتے ہیں؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں نقد 1800 روپے دے کر اس کے کے بدلے میں ادھار 2100 کے چاول کا معاملہ درست ہے۔ تاہم بیعِ سلم کی چند شرائط ہیں جن کی پابندی ضروری ہے، ان میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں معاملہ ناجائز ہوگا۔ بیعِ سلم کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:-  

  • مبیع ان اشیاء میں سے ہو جن میں بیعِ سلم ہو سکتی ہو۔ مثلا چاول میں بیع سلم ہو سکتی ہے۔
  • پوری قیمت پر خرید و فروخت کی مجلس میں قبضہ ہو۔
  • مبیع کی جنس معلوم ہو، مثلا صورتِ مسئولہ میں چاول ایک معلوم جنس ہے۔
  • مبیع (مثلا صورتِ مسئولہ میں چاول) کی نوع (قسم) اور صفت (کوالٹی) اس قدر وضاحت کے ساتھ بیان کردی جائے کہ بعد میں اس کے بارے میں فریقین (خریدار  اور فروخت کنندہ) کےدرمیان کسی قسم کے اختلاف کا امکان نہ رہے۔
  • مبیع کی مقدار واضح طور پر متعین ہو، مثلا یہ کہ وہ شخص آپ کو اتنے کلو یا اتنے من چاول بیچ رہا ہے۔ اگر مقدار بوری کے اعتبار سے طے ہو تو پھر جس بوری کے حساب سے معاملہ ہو وہ بوری متعین ہو کہ اتنے وزن کی فلاں بوری۔ کوئی ایسا پیمانہ جس کی مقدار معلوم نہ ہو

اور وہ پیمانہ عام دستیاب بھی نہ ہو، اس سے مبیع کی مقدار طے کرنا کافی نہیں ۔

  • چاول کی ادائیگی کی ایک متعین اور معلوم مدت طے کی جائے۔ حضراتِ حنفیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے مفتیٰ بہ قول کے مطابق یہ مدت کم از کم ایک ماہ ہونا ضروری ہے۔
  • مبیع یعنی چاول کی ادائیگی کی جگہ بھی طے کر لی جائے۔ 
  • بیع کی نسبت کسی خاص کھیت یا زمین کے چاول کی طرف نہ ہو، بلکہ مطلقا چاول بیچے۔ پھر بائع کو اختیار ہے، وہ بیع میں طے کردہ شرائط اور صفات کے مطابق چاول کہیں سے بھی دے سکتا ہے، اپنی فصل سے بھی اور کہیں اور سے بھی۔
  • چاول کی خریداری کےوقت سے لےکرخریدارکوسپرد کرنے کی مقررہ تاریخ    تک اُسی قسم اور کوالٹی کے چاول بازار سے بالکل ختم(شارٹ) نہ ہوں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر فریقین مذکورہ بالا تمام شرائط کا خیال رکھیں گے تو یہ معاملہ جائز ہوگا۔

حوالہ جات
مختصر القدوری  (178):
السلم جائز في المكيلات والموزونات والمعدودات التي لا تتفاوت كالجوز والبيض وفي المذروعات، …….ولا يجوز السلم حتى يكون المسلم فيه موجودا من حين العقد إلى حين المحل، ولا يصح السلم إلا مؤجلا ولا يجوز إلا بأجل معلوم، ولا يجوز السلم بمكيال رجل بعينه ولا بذراع رجل بعينه، ولا في طعام قرية بعينها ولا ثمرة نخلة بعينها .
ولا يصح السلم عند أبي حنيفة إلا بسبع شرائط تذكر في العقد: جنسٍ معلومٍ، ونوعٍ معلومٍ، وصفةٍ معلومةٍ، ومقدارٍ معلومٍ، وأجلٍ معلومٍ، ومعرفة مقدار رأس المال إذا كان مما يتعلق العقد علی مقداره کالمکیل و الموزون و المعدود، و تسمیة المکان الذی یوفیه فیه إذا کان له حمل ومؤنةٌ. و قال أبو یوسف و محمد: لا یحتاج إلی تسمیة رأس المال إذا کان معینا، و لا إلی مکان
 التسلیم، و یسلمه فی موضع العقد.
الدر المختار (5/ 214):
(……وأجل وأقله ) في السلم ( شهر ) به يفتى.
رد المحتار (5/ 214):
 قوله ( في السلم ) احتراز عن خيار الشرط ولا حاجة إليه .  قوله ( به يفتى ).  وقيل ثلاثة أيام. وقيل أكثر من نصف يوم. وقيل ينظر إلى العرف في تأجيل مثله. والأول أي ما في المتن أصح وبه يفتى زيلعي،  وهو المعتمد   بحر، وهو المذهب  نهر.
فقه البيوع ( 1 / 578-577):
ثم اختلف الفقهاء في تحديد  أقل مدة السلم في تأجيل السلم ، لأنه لم يرد فيه نص فروي عن الإمام محمد بن الحسن رحمه الله تعالي  أنه مقدر بشهر ، لأنه أدني الأجل أقصي العاجل.  ويقرب منه مذهب الحنابلة حيث قالوا من شرط الأجل أن يكون مدة لها وقع في الثمن كالشهر وماقاربه. وقد رويت عن مشائخ الحنفية روايات مختلفة، منها ما روي عن الكرخي رحمه الله أنه مقدار مايمكن فيه تحصيل المسلم فيه ، وعنه أن ينظر إلي مقدار  المسلم فيه ،وإلي عرف الناس في تأجيل مثله، وقدره  بعضهم  بثلاثة أيام قياسا علي خيار الشرط، وبعضهم بنصف اليوم،  واختار صاحب الهداية وابن الهمام التقدير   بشهر علي قول الإمام محمد رحمه الله تعالي.  وقدر المالكية أدنی مدة السلم بنصف شهر. أما الشافعية فليس عندهم أجل مقدر بل إنهم يجوزون السلم الحال كما مر.
 وبما  أنه  ليس هناك نص في تحديد مدة السلم فإن المجلس الشرعي  لهيئة  المحاسبة والمراجعة للمؤسسات  المالية الإسلامية لم يحدد مدة لأجل السلم فجاء في المعيار الشرعي للسلم :
يشترط أن يكون أجل تسليم المسلم فيه معلوما على نحو يزيل الجهالة المفضية إلى النزاع، ولا مانع من تحديد آجال متعددة لتسليم المسلم فيه على دفعات بشرط تعجيل رأس مال السلم كله.
وهذا مبني علي قول رسول الله صلي الله تعالي عليه وسلم " فليسلف في أجل معلوم ، بدون تقييد الأجل بمدة معينة، فظهر أن المقصود تعيين الأجل سواء أكان  قصيرا أم طويلا.  و الله سبحانه و تعالی أعلم بالصواب.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

5/صفر المظفر /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب