021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدرسہ کے کارڈ اور امتحانی فارم پر تصویر لگانے کا حکم
74085جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

مدارس کے کارڈ اور امتحانی فارم میں جو تصویر لگائی جاتی ہے، وہ جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایسی ضرورت اور حاجت کے موقع پر تصویر استعمال کرنے کی گنجائش ہے جہاں چہرے کی شناخت ضروری ہو۔ اسکولوں یامدارس میں داخلہ، رہائش، اور امتحان کے لیے جو کارڈ یا فارم تیار کیے جاتے ہیں، ان میں بھی چونکہ ہر ہر طالبِ علم کی الگ الگ شناخت ضروری ہے، اس لیے اس ضرورت اور حاجت کی وجہ سے مدرسہ کے کارڈ اور امتحانی فارم پر تصویر لگانے کی گنجائش ہے۔     

حوالہ جات
تکملة فتح الملهم (4/164):
هذا هو حکم الصورة فی الأصل. أما اتخاذ الصورة الشمسیة للضرورة و الحاجة کحاجتها فی جواز السفر، وفی التاشیرة، وفی البطاقات الشخصیة، أو فی مواضع یحتاج فیها الی معرفة هویة المرء فینبغی أن یکون مرخصاً فیه؛ فإن الفقهاء رحمهم الله تعالیٰ استثنوا مواضع الضرورة من الحرمة. قال الإمام محمد ؒ فی السیر الکبیر:"و إن تحققت الحاجة له استعمال السلاح الذی فیه تمثال فلا بأس باستعماله"، و أعقبه السرخسی ؒ فی شرحه 278:2 بقوله: "لأن مواضع الضرورة مستثناة من الحرمة کما فی تناول المیتة". و ذکر السرخسیؒ أیضا: " إن المسلمین یتبایعون بدراهم الأعاجم فیها التماثیل بالتیجان، و لا یمنع أحد عن المعاملة بذلك". و قال فی موضع آخر من شرحه 212:3 " لا بأس بأن یحمل الرجل فی حال الصلاة دراهم العجم، و إن کان فیها تمثال الملك علی سریره و علیه تاجه". و قد ثبت بالأحادیث الصحیحة أن رسول الله صلی الله علیه و سلم أجاز لعائشة رضی الله عنها اللعب بالبنات. و إن الفقهاء - رحمهم الله تعالیٰ -أباحوا للمرأة أن تکشف عن وجهها عند الشهادة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  5/صفر المظفر/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب