021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ناشزہ عورت کے حوالے سے مرد کے اختیارات
74071نان نفقہ کے مسائلنان نفقہ کے متفرق مسائل

سوال

کوئی عورت ناشزہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے،مرد کے اس کے حوالے سے کتنے اختیارات ہیں اور اس حوالے مرد کیا کچھ کرسکتا ہے،ایسی عورت کے مرد کے ذمے کیا حقوق ہوتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ناشزہ عورت کی اصلاح کا طریقہ کار اللہ رب العزت نے خود قرآن مجید میں بیان فرمادیا ہے،چنانچہ سورہ نساء میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا  وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا } [النساء: 34، 35]

ترجمہ:اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ اور( اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑدو( اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو )انہیں مارسکتے ہو،پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کاروائی کا کوئی راستہ نہ تلاش کرو،یقین رکھو کہ اللہ سب کے اوپر،سب سے بڑا ہے۔

اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو( ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو،اگر دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرمادے گا،بے شک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔

(آسان ترجمہ قرآن197:)

واضح رہے کہ مذکورہ بالا آیت میں مارنے سے مراد ہلکی پھلکی مار ہے جس سے ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے کی نوبت نہ آئے۔(معارف القرآن400/2:)

ایسی عورت جو مباح امور میں شوہر کی بات نہ مانے،لیکن شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں رہ رہی ہو تو محض نافرمانی کی وجہ سے اس کا نفقہ شوہر کے ذمے سے ساقط نہیں ہوگا،البتہ جو عورت شوہر کی نافرمانی کے ساتھ  بغیر کسی معقول وجہ کے اس کی اجازت کے بغیر اس کا گھر چھوڑ کر چلی جائے تو اس کا نان نفقہ شوہر کے ذمے سے ساقط ہوجاتا ہے،جب تک وہ واپس نہ آجائے۔

دونوں قسم کی عورتوں کا اصلاح کا طریقہ وہی ہے جو مذکورہ بالا قرآنی آیات میں ذکر کیا گیا اگر یہ سب کرنے کے باوجود  دونوں کے درمیان نباہ کی کوئی صورت نہ بن پارہی ہو تو پھر شوہر کو اسے طلاق دینے کی گنجائش ہے،لیکن طلاق کے حوالے سے یہ ذہن میں رہے کہ ایک تو ماہواری کی حالت میں طلاق نہ دی جائے اور دوسرا یہ کہ ایک ساتھ تین طلاقیں نہ دی جائیں،بلکہ پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر چھوڑدے،جب عورت کی عدت گزرجائے گی تو وہ کسی اور سے نکاح کرسکے گی۔

ایک طلاق دینے کا فائدہ یہ ہے کہ اگر بالفرض بعد میں پھر کبھی دونوں دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہیں تو رجوع کی صورت میں ممکن ہوگی۔

اور اگر شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو اسے یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ عورت سے کچھ عوض لے کر اسے خلع دے دے،لیکن عورت کو دئیے گئے مہر سے زیادہ عوض لینا مناسب نہیں۔

حوالہ جات
"رد المحتار"(ج 12 / ص 122):
"( قوله : وكره تحريما أخذ الشيء ) أي قليلا كان ، أو كثيرا .
والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا { فلا تأخذوا منه شيئا}  إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث ، وتمامه في الفتح ، لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي : أخرج ابن أبي جرير عن ابن زيد في الآية قال : ثم رخص بعد ، فقال : { فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به } ، قال :فنسخت هذه تلك ا هـ وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت ا هـ أي سواء كان النشوز منه أو منها ، أو منهما .
لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط ، والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما ، وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابتة بالإجماع ، وبقوله تعالى{ ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا } وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ مالها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم .
( قوله : ويلحق به ) أي بالأخذ ( قوله : إن نشز ) في المصباح نشزت المرأة من زوجها نشوزا من باب قعد وضرب عصته .
ونشز الرجل من امرأته نشوزا بالوجهين : تركها وجفاها ، وأصله الارتفاع ا هـ ملخصا ( قوله : ولو منه نشوز أيضا ) لأن قوله تعالى - { فلا جناح عليهما فيما افتدت به } - يدل على الإباحة إذا كان النشوز من الجانبين بعبارة النص ، و إذا كان من جانبها فقط بدلالته بالأولى .
( قوله : وبه يحصل التوفيق ) أي بين ما رجحه في الفتح من نفي كراهة أخذ الأكثر وهو رواية الجامع الصغير وبين ما رجحه الشمني من إثباتها وهو رواية الأصل ، فيحمل الأول على نفي التحريمية والثاني على إثبات التنزيهية ، وهذا التوفيق مصرح به في الفتح ، فإنه ذكر أن المسألة مختلفة بين الصحابة وذكر النصوص من الجانبين ثم حقق ثم قال : وعلى هذا يظهر كون رواية الجامع أوجه ، نعم يكون أخذ الزيادة خلاف الأولى ، والمنع محمول على الأولى .ا هـ .ومشى عليه في البحر أيضا .

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

05/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب