021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگر ایک دفعہ ترکہ کی قیمت لگائی گئی تو کیا پھر تقسیم اسی کے مطابق ہوگی؟
74104میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

(1)۔۔۔  2018ء میں سب بہن بھائیوں اور بیوہ نے بیٹھ کر مرحوم کی 2 دکانوں   اور 2 مکانات کی قیمت 2کروڑ 40 لاکھ روپے لگائی، اورخالد ،آصف اور طارق نے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کو رقم ادا کی۔    آصف کی بیوہ، طارق اور خالد کے مطابق اس ڈیل کے وقت سب موجود تھے اور راضی تھے۔ عمر فاروق کے بقول میں  اس قیمت پر راضی نہیں تھا، سب کو حصہ نہیں دیا گیا۔ اس صورت میں 2018 ء  والی رقم کا اعتبار کیا جائے گا، یا اب2021ء میں دکانوں اور مکانوں کی نئی سرے سے قیمت لگا کر تقسیم ہوگی؟  

(2)۔۔۔  قیمت لگاتے وقت والدہ زندہ تھی اور مجلس میں موجود تھی، لیکن ان کے حصے کی قیمت بھی لگائی گئی تو اس کا کیا حکم ہے؟  

(3)۔۔۔  اب ایک بھائی آصف فوت ہو گیا ہے جس کے ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹیاں، چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اب والد اور آصف کی وراثت کیسے تقسیم ہو گی؟

(4)۔۔۔کیا والد کی جائیداد کا جو حصہ آصف نے زندگی میں بھائی اور بہن سے خریدا تھا، وہ بھی تقسیم ہوگا؟ اور مکمل تقسیم سے پہلے یہ خرید و فروخت جائز تھی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔  2018ء میں اگر ان دکانوں اور مکانات کی قیمت لگانے کے بعد ایک بھائی اور دو بہنوں کو ان کے حصوں کی قیمت ادا کر کے ان کے حصے ان کی رضامندی سے خرید لیے تھے تو اب وہ دوبارہ تقسیم کا مطالبہ نہیں کر سکتے، ان کے حصوں کے مالک اب وہی ورثا ہوں گے جنہوں نے وہ حصے خریدے۔ اسی طرح اگر حصوں کی خرید و فروخت کے بعد قیمت نقد ادا نہ کی گئی ہو، بلکہ باہم رضامندی سے اس کی ادائیگی کے لیے مستقبل کی کوئی متعین مدت طے کی گئی تھی تو بھی ان کے حصے ان کی ملکیت سے نکل گئے ہیں، ان کو وہی قیمت ملے گی جو اس وقت ان کی رضامندی سے طے ہوئی تھی۔ اب وہ دوبارہ تقسیم کا مطالبہ نہیں کر سکیں گے۔ البتہ جن ورثا نے قیمت لگنے کے بعد اپنے حصے دوسرے ورثا کو نہیں بیچے تو وہ خود اپنے حصوں کے مالک ہیں، آئندہ جب کبھی تقسیم ہوگی تو انہیں اسی وقت کے حساب سے قیمت ملے گی۔

جہاں تک عمر فاروق کے حصے کا تعلق ہے تو سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ عمر فاروق کے حصے کی صرف قیمت لگائی گئی تھی، یا قیمت لگانے کے بعد کسی نے اس کا حصہ اس کی رضامندی سے خرید لیا تھا؟ اگر صرف قیمت لگائی گئی تھی، کسی نے اس کا حصہ خریدا نہیں تھا تو پھر وہ اپنے حصے کا خود مالک ہے، لہٰذا اگر آج اس کو اس کا حصہ تقسیم کر کے دیا جائے گا تو آج کے اعتبار سے حصہ یا اس کی قیمت دی جائے گی۔ لیکن اگر عمر فاروق نے اپنا حصہ نقد بیچ کر اس وقت قیمت وصول کی تھی یا ادھار بیچ کر قیمت کی ادائیگی کے لیے ایک متعین مدت مقرر کی تھی تو اب وہ دوبارہ تقسیم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔  

 اگر دوسرے ورثا عمر فاروق سے اس کا حصہ اس کی رضامندی سے خریدنے کا دعوی کرتے ہوں اور وہ انکار کرتا ہو تو خریداری کا دعویٰ کرنے والے ورثا سے گواہوں کا مطالبہ ہوگا، اگر وہ گواہ پیش کرلیں تو ان کی بات معتبر ہوگی اور عمر فارو ق کو 2018ء کے حساب سے قیمت ملے گی، آج کے حساب سے نہیں۔ لیکن اگر وہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو پھر عمر فاروق کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی، اگر یہ اپنی بات پر قسم اٹھا لیتا ہے تو ان دکانوں اور مکانات میں اس کا حصۂ میراث موجود ہوگا، اور آئندہ جب تقسیم ہوگی تو اُس وقت کی قیمت کے اعتبار سے اس کو حصہ ملے گا۔  اور اگر عمر فاروق قسم اٹھانے سے انکار کرے تو پھر اس کا حصہ خریدنے کا دعویٰ کرنے والے ورثا کا دعویٰ ثابت ہوگا، اور اسے 2018ء میں طے شدہ قیمت ملے گی، آج کے حساب سے حصہ نہیں  ملے گا۔

(2)۔۔۔ اگر تقسیم کے وقت والدہ کے حصہ کی صرف قیمت لگائی گئی تھی، کسی نے ان کا حصہ ان سے خریدا نہیں تھا تو وہ اپنے حصے کی بدستور مالک تھی۔ اب اگر ان کا انتقال ہو چکا ہے تو ان کا حصہ ان کے ورثا میں اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ لیکن اگر ان کا حصہ کسی ایک یا چند ورثا  نے ان کی رضامندی سے خرید لیا تھا تو پھر وہ صرف خریدنے والے ورثا کا ہوگا، البتہ اس حصے کی جو قیمت (نقد یا ادھار) موجود ہوگی، وہ والدہ کی میراث شمار ہوگی اور ان کی وفات کے وقت زندہ تمام ورثا میں تقسیم ہوگی۔

(3)۔۔۔  والد صاحب کی وفات کے وقت ان کے جو ورثا زندہ تھے، وہ سب والد صاحب کی میراث میں اپنے اپنے حصوں کے حق دار تھے۔ والد صاحب کے بعد جن ورثا کا انتقال ہوا ہو، ان کی میراث (بشمول والد صاحب کے ترکہ سے ملنے والے) حصے کے، ان کے ورثا میں تقسیم ہوگی۔ چونکہ سوال میں والد صاحب کی وفات کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی، اور نانی کے زندہ یا فوت ہونے کی وضاحت نہیں ہے، اسی طرح آصف کی وفات کے وقت اس کی والدہ، دادا، دادی اور نانی کے زندہ یا فوت ہونے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا، مزید یہ کہ کن کن ورثا نے اپنا حصہ دوسرے ورثا کو بیچا ہے اور کیا وہ اقرار کر رہے ہیں؟ کن کن ورثا نے اپنا حصہ نہیں بیچا؟ کس کے حصے میں اختلاف ہے؟ چونکہ ان ساری باتوں کی وضاحت کے بغیر ترکہ کی تقسیم ممکن نہیں؛ اس لیے اب زندہ ورثا کے حصے معلوم کرنے کے لیے یہ تمام باتیں وضاحت کے ساتھ لکھ کر کسی دار الافتاء سے فتویٰ حاصل کریں۔ پھر سوال میں اس وقت ملک رحیم الدین کی بیوہ کے زندہ ہونے یا انتقال کر جانے کی بھی صراحت نہیں، اگر وہ فوت ہوگئی ہے تو اس کا ترکہ بھی اس کے ورثا میں تقسیم ہوگا۔

(4)۔۔۔ اگر آصف نے واقعۃ اپنے بہن اور بھائی کے حصے ان کی رضامندی سے ایک مقررہ قیمت پر ان سے خریدے تھے تو اب وہ حصے والد صاحب کے ترکہ میں شامل نہیں ہوں گے، بلکہ آصف کے ترکہ میں شامل ہو کر صرف آصف کے ورثا کے درمیان تقسیم ہوں گے۔

ترکہ کی تقسیم سے پہلے اگر کوئی وارث اپنا حصہ اپنی رضامندی سے کسی دوسرے وارث کو بیچنا  چاہے تو یہ جائز ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جس خرید و فروخت کا باہم رضامندی سے ہونا ثابت ہوجائے وہ شرعا درست اور معتبر ہوگا۔

حوالہ جات
الدر المختار (5/ 644):
( ولو أخرجوا واحدا ) من الورثة ( فحصته تقسم بين الباقي على السواء إن كان ما أعطوه من مالهم غير الميراث وإن كان ) المعطى ( مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم ) يقسم بينهم.
رد المحتار (5/ 644):
قوله ( على السواء ) أفاد أن أحد الورثة إذا صالح البعض دون الباقي يصح وتكون حصته له فقط كذا لو صالح الموصى له كما في الأنقروي،  سائحاني……….. قوله ( من مالهم ) أي وقد استووا فيه، ولا يظهر عند التفاوت ط. قوله ( فعلى قدر ميراثهم ) وسيأتي آخر كتاب الفرائض بيان قسمة التركة بينهم حينئذٍ.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  6/صفر المظفر/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب