021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ترکہ کے مشترکہ مکانات میں بعض ورثا کی ذاتی تعمیر کا حکم
74105شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

(وراثت کے) دونوں مکانوں میں تین بھائیوں نے اپنی مرضی سے کچھ تعمیرات کیں، کیا اب وہ بھی (میراث میں) تقسیم ہوں گی، یا وہ اس کی قیمت باقیوں سے لیں گے، یا وہ اسے اکھاڑ سکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں تین بھائیوں نے ترکہ کے مکانات میں اپنے لیے جو تعمیرات کی ہیں، وہ ان کی ذاتی ملکیت ہے۔ لہٰذا: 

(الف)۔۔۔ اگر یہ مکانات حسی طور پر تقسیم ہوں تو اگر ان تین بھائیوں میں سے ہر ایک کی تعمیر، میراث میں اس کو ملنے والے حصے میں آتی ہے، تب تو بہت اچھی بات ہے، وہ ان تعمیرات سمیت اپنے اپنے حصے کے مالک ہوں گے۔ لیکن اگر ان کی تعمیرات دوسرے ورثا کے حصوں میں آئیں، تو جس بھائی کی تعمیر جس دوسرے وارث کے حصے میں آئے، وہ بھائی اس وارث کی رضامندی سے وہ تعمیر اسے بیچ سکتا ہے، اگر اس حصے کا مالک وارث وہ تعمیر نہ لینا چاہے تو وہ تعمیر کے مالک کو تعمیر اکھاڑنے پر مجبور کرسکتا ہے، اور اگر تعمیر اکھاڑنے سے اس کے حصے کو نقصان پہنچتا ہو تو پھر وہ تعمیر کے مالک کو ملبہ کی قیمت دے کر تعمیر خود لے سکتا ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ باہم رضامندی سے تعمیر کی کوئی مناسب قیمت طے کی جائے؛ تاکہ جانبین نقصان سے بچ سکیں۔

(ب)۔۔۔ اور اگر ان مکانات کی حسی تقسیم نہ ہو، بلکہ انہیں بیچ کر ان کی قیمت ورثا میں تقسیم ہو تو پھر وہ قیمت ان مکانات کی زمین اور تعمیرات پر تقسیم کی جائے گی، جس بھائی کی تعمیر کے مقابلے میں جتنی رقم آتی ہو، وہ اسے دی جائے گی، اس کے بعد باقی رقم تمام ورثا میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 157):
( سئل ) فيما إذا بنى زيد قصرا بماله لنفسه في دار مشتركة بينه وبين إخوته بدون إذنهم، فهل يكون البناء ملكا له؟ ( الجواب ) : نعم، وإذا بنى في الأرض المشتركة بغير إذن الشريك له أن
 ينقض بناءه، ذكره في التتارخانية من متفرقات القسمة .
( سئل ) في دار مشتركة بين جماعة بنى فيها بعضهم بناء لأنفسهم بآلات هي لهم بدون إذن الباقين، ويريد بقية الشركاء قسمة نصيبهم من الدار المذكورة وهي قابلة للقسمة، فهل لهم ذلك وما حكم البناء؟ ( الجواب ) : حيث كانت قابلة للقسمة وينتفع كل بنصيبه بعد القسمة فلبقية الشركاء ذلك، ثم البناء حيث كان بدون إذنهم إن وقع في نصيب الباقين بعد قسمة الدار فبها ونعمت، وإلا هدم البناء كما في التنوير وغيره .
الدر المختار (6/ 268):
( بنى أحدهما ) أي أحد الشريكين ( بغير إذن الآخر ) في عقار مشترك بينهما ( فطلب شريكه رفع بنائه قسم ) العقار ( فإن وقع ) البناء ( في نصيب الباني فيها ) ونعمت ( وإلا هدم ) البناء وحكم الغرس كذلك،  بزازية.
رد المحتار (6/ 268):
قوله ( بغير إذن الآخر ) وكذا لو بإذنه لنفسه؛ لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء.  أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة،  رملي  على الأشباه.
الهداية (3/ 222):
قال: وإذا استعار أرضا ليبني فيها أو ليغرس فيها جاز، وللمعير أن يرجع فيها ويكلفه قلع البناء والغرس. أما الرجوع فلما بينا، وأما الجواز فلأنها منفعة معلومة تملك بالإجارة فكذا بالإعارة. وإذا صح الرجوع بقي المستعير شاغلا أرض المعير فيكلف تفريغها. ثم إن لم يكن وقت العارية فلا ضمان عليه؛ لأن المستعير مغتر غير مغرور حيث اعتمد إطلاق العقد من غير أن يسبق منه الوعد …….قالوا: إذا كان في القلع ضرر بالأرض فالخيار إلى رب الأرض؛ لأنه صاحب أصل، و المستعیر صاحب تبع، و الترجیح بالأصل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  6/صفر المظفر/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب