03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کن کاموں اور باتوں سے انسان کافر ہوتا ہے؟
74093ایمان وعقائدکفریہ کلمات اور کفریہ کاموں کابیان

سوال

مفتی صاحب! مجھے تفصیل سے جاننا ہے کہ حقیقی طور پر ایک مسلمان پرکفر کا حکم کب لگتا ہے؟ میں نے جب سے اس بارے میں کچھ مسائل پڑھے ہیں، بہت پریشان رہتی ہوں،آج کل تقریباً تمام مسلمان ان مسائل سے ناواقف ہیں، میں نے جب سے کفریہ کلمات کے بارے میں پڑھا ہے، بہت فکر لاحق ہو گئی ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید ہی کوئی مسلمان ہو جس کا ایمان محفوظ ہو گا، ورنہ تو سب کا ایمان خطرہ میں لگتاہے، لاعلم لوگ دین کے احکامات میں ایک دوسرے سے بحث و مباحثے کر رہے ہوتےہیں،نا واقفیت کی بنا پرغم وغصے میں کفریہ قسم کے الفاظ بول دیتے ہیں، کسی گناہ کے بارے میں غصے میں بول دیتے ہیں "یہ گناہ نہیں ہے۔"نماز پڑھنے کا بولوتو کہ دیتے ہیں "نہیں پڑھتے" -اس طرح بہت سے کلمات وغیرہ۔

میرے ذہن میں اس بارے میں بہت سے سوالات آتے ہیں:

۱۔کیا کفریہ کلمات کے کہنے سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے جبکہ وہ دل سے ضروریات دین کا انکار نہ کرتا ہو،بلکہ غصہ, یا مزاق میں ایسا کلمہ بول دے،کیونکہ میں نے ایک عالم سے سنا کہ ان کلمات سے حقیقت میں کفر لازم نہیں آتا۔

۲۔لزوم کفر اور التزام کفر سے کیا مراد ہے؟آسان الفاظ میں سمجھا دیں۔

۳۔اگر کوئی مسلمان کفریہ کلمات بول دے مگر نا واقفیت کی بنا پر تجدید نکاح نہ کرے تو اولاد کا کیا حکم ہو گا؟

۴۔ایسے لوگ جو بالکل ان پڑھ اور جاہل ہوتے ہیں جیسے دیہاتی, خانہ بدوش وغیرہ ان کے لئے کیا حکم ہو گا؟ کیا ان کی جہالت عذر ثابت ہو گی؟جبکہ ایسے لوگ ان مسائل میں اکثر لاپرواہی دکھاتے ہیں۔

۵۔خدانخواستہ اگر کوئی شخص لاعلمی کی بناء پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح کئےبغیر فوت ہو گیاتو اس کا شمار کن لوگوں میں ہو گا؟

مفتی صاحب میرے والد صاحب اور بعض گھر والے ایسے کلمات بول دیتے ہیں جس سے مجھے ان کے ایمان کی بہت فکر لاحق ہو جاتی ہے،مجھے سمجھ نہیں آتی، میں ان سب کو کیسے سمجھاوں ،کیونکہ نہ تو میں کوئی عالم ہو ں،جو میری بات کوئی سنے گا، اس کے علاوہ میں خود بھی اس بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتی، ایسا نہ ہو کہ میرےسمجھانے پر فتنہ وفساد برپا ہو اور گھر والے ٹینشن میں مبتلا ہو جائیں، مجھےکوئی مشورہ دیں، میں سب کو کیسے اس بارے میں آگاہی دوں،کوئی آسان فہم لٹریچر،بیان وغیرہ ہو تو حوالہ دے دیجیے. تاکہ تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں۔

.مہربانی فرما کر مجھے تفصیل سے بتائیں کہ مسلمان پر حقیقی معنوں میں کفر کاحکم کب ثابت ہوتا ہے؟اور کن اعمال کے کرنے سے کفر کا حکم لگتا ہے؟ مجھے اپنی اور اپنے گھر والوں کے ایمان کی بہت فکر رہتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس سوال کا جواب سمجھنے کے لیے ایمان اور کفر کی تعریف اور حقیقت کو جاننا ضروری ہے۔

ایمان نام ہے تمام ضروریات ِ دین کے جاننے اور دل سے تسلیم و قبول کرنے کا،جبکہ کفر ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کے انکار کو کہا جاتا ہے۔

پھر کافر ہوجانے کی دو صورتیں ہیں:۱۔التزامِ کفر،۲۔لزومِ کفر

التزامِ کفر:

التزامِ کفر یہ ہے کہ جان بوجھ کر عقیدۂ کفریہ کو اختیار کرے یا کسی حکم کا انکار کرے۔

جان بوجھ کر انکار کی مختلف صورتیں ہیں:

۱۔صراحۃً(واضح طور پر) انکار کرنا اور جھٹلانا۔

حقیقی انکار درجِ ذیل صورتوں میں ہوتا ہے:

الف۔رسول اللہ ﷺ کی رسالت ہی کو نہ مانے۔

ب۔آپ ﷺ کے کسی ایک بھی حکم کو صراحۃً غلط (خلافِ واقع یا خلاف حقیقت) قرار دے۔

ج۔کسی مسلمہ طور پر ثابت شدہ(اجماعی) حکم کا جان بوجھ کر انکار کرے۔

۲۔اپنے قول یا فعل سے دین کے کسی قطعی حکم(جس کا ثبوت کسی بھی درجے میں قطعی اور یقینی ہو یعنی مستحب یا سنت کے طور پر ہو یا فرض وواجب کے طور پر)کا مذاق اُڑانا،توہین و تحقیر کرنا۔

۳۔عمداً ایسا کام کرنا یا ایسی بات کہنا جو استخفاف (دین میں ثابت شدہ کسی مسلمہ امر کی تحقیر) کی واضح علامت ہو۔

۴۔اپنی مرضی واختیار سے ایسا اقدام کرناجو دین کی تکذیب (جھٹلانے) کی دلیل اور علامت ہو، مثلاً کافروں کی طرح بتوں کو سجدہ کرنا یا قرآن کو گندگی میں ڈالنا یا کافروں کے مذہبی شعار اپنانا۔

۵۔بغیر کسی جبر واکراہ کےکسی باطل فرقے کی طرف اپنی نسبت کرنا،مثلاً اپنے کوقادیانی کہنایا لکھنا،لکھوانا ۔

۶۔ضروریاتِ دین (قطعی و بدیہی احکام) میں سے کسی حکم کی ایسی تاویل کرنا جو اجماع امت کے خلاف اور کھلم کھلا بے بنیاد ہو۔

ان چھ صورتوں میں سے پہلی صورت حقیقی انکار و تکذیب کی ہے،جبکہ باقی پانچ صورتیں بھی انکار کے حکم میں ہیں، اگرچہ ان میں صاف انکار نہیں۔

قطعیات وضروریات میں تاویل وانکار کا حکم:

وضاحت: جن احکامِ شرعیہ کا انکار باعث ِ تکفیر ہے ان کی دو نوعیتیں ہیں:

1۔قطعی محض،2۔قطعی بدیہی

قطعی محض:

وہ احکامِ شرعیہ جن کا ثبوت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمت کے ایسے صریح واضح اور یقینی دلائل سے ہو جن میں کسی قسم کا شبہہ نہ ہو،لیکن اس قدر معروف ومشہور نہ ہوں جس سے ہر خاص و عام  واقف ہو۔

قطعی بدیہی:

وہ احکامِ شرعیہ جو مذکورہ بالا مفہوم کے مطابق قطعی ہونے کے علاوہ اس قدر معروف و مشہور ہوں کہ ہر عام و خاص اس سے واقف ہو جیسے: نماز، زکوٰۃ، اذان ، ختم نبوت وغیرہ۔

قطعی محض کا انکار اس وقت موجب ِ کفر بنتا ہے،جبکہ انکار کرنے والے کو اس کا حکم شرعی ہونا یقینی طور پر معلوم ہو(روح المعانی)اور کسی معتبرذریعے(شرعی دلیل )کے سہارےسےحاصل تاویل کے بغیر انکار کرے،(در مختار)لہذاکسی دلیل کی بنیادپرتاویل یاجہالت(ناواقفیت)غلطی اور بھول کی بناء پر انکار باعث ِ کفر نہ ہوگا،جبکہ قطعی بدیہی کا انکار بہر صورت (خواہ علم ہو نہ ہو) بالاتفاق باعث ِ کفر ہے،نیز قطعی بدیہی کی خلاف ِظاہر تاویل بھی بہر حال(خواہ بظاہرکسی دلیل کا سہارا لے یا کہ نہیں۔)باعث ِ کفر ہے جیسا کہ ختم نبوۃ کے مفہوم میں مرزاقادیانی کا تاویل کرنا۔

(مزیدتفصیل کے لیے رسالہ"ایمان اور کفر" تالیف مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  اور رسالہ"ایمان و کفر کا معیار" تالیف مفتی رشید احمد رحمہ اللہ  ،مندرجہ احسن الفتاویٰ 1/70 ملاحظہ ہو۔)

حاصل یہ کہ کفر پورے دین اسلام کے صراحۃً انکار ہی کو نہیں کہا جاتا،بلکہ دین اسلام کے قطعی احکام میں سے کسی ایک حکم کا بھی جان بوجھ کر انکار یا استخفاف کرنا خواہ صراحۃً ہو یا دلالۃً یا کسی قطعی بدیہی حکم کی خلافِ ظاہر وبداہت تاویل کرنا یا کسی کافر فرقے کی طرف اپنا انتساب کرنا بھی کفر ہے اور اس سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔

لزومِ کفر:

لزومِ کفر یہ ہے کہ ان جانے میں ایسے قول یا فعل کا ارتکاب کیا جائے جس سے کفر لازم آئے۔

چنانچہ بعض دفعہ کفریہ کلمات کے زبان پر لانے سے بھی انسان نادانستہ طور پر شرعاً کافر قرار پاتا ہے۔

البتہ کسی کلمۂ کفر کو زبان پر لانے کی مختلف صورتیں ہیں،جن کے احکام بھی مختلف ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔حکم شرعی قطعی کا یقینی علم ہو اور عمداً (جان بوجھ کر) زبان پر کلمۂ کفر لایا جائے اور کفر کا ارادہ اور نیت بھی ہو، مثلاً جان بوجھ کر اپنے اختیار سے کلمۂ کفر کہنا۔(یہ در حقیت التزام کفر ہے۔)

۲۔حکم شرعی قطعی کا علم ہواورعمداً (جان بوجھ کر)زبان پرکلمۂ کفرلائے،اور کفر کا ارادہ نہ ہو،لیکن ساتھ ہی استخفاف کی واضح دلیل وعلامت پائی جائے،مثلاًمزاح یالہوولعب کے طورپرکلمۂ کفر کہنا،ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق قائل کو کافر کہاجائے گا۔

۳۔نہ حکم شرعی قطعی کا علم ہو اور نہ ہی جان بوجھ کر زبان پر لایا اور نہ ہی کفر کا ارادہ ہو، مثلاً: بھول کر زبان سے کلمۂ کفر کہنا۔

۴۔علم تو تھا،لیکن نہ تو جان بوجھ کر زبان پر لایا ہو اور نہ ہی کفر کا قصد و ارادہ ہو، مثلاً: غلطی سے یا جبراً کسی کلمۂ کفر کا زبان پر لانا۔ ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق قائل کو کافر نہیں کہا جائے گا۔

۵۔جان بوجھ کر زبان پر کلمۂ کفر لایا،لیکن کلمۂ کفر ہونے کا یا حکم ِ قطعی شرعی ہونے کا علم نہ ہو اور نہ ہی قصد اور ارادۂ کفر ہو، مثلاً: جہالت کی وجہ سے کلمۂ کفر بولنا۔

۶۔علم بھی ہواوربغیر کسی صحیح غرض ( نقل وحکایت)کےجان بوجھ کرزبان پربھی لایاہو،اور کفریہ معنی یاکافرہونے کاارادہ نہ ہویاکافرنہ ہونےکا ارادہ ہو،لیکن ساتھ ہی استخفاف کی کوئی واضح علامت بھی نہ پائی جائے۔مثلاً:صحیح اعتقاد کے باوجود،بلاضرورت جان بوجھ کر کلمۂ کفر بولنا۔

ان آخری دونوں صورتوں میں اختلاف ہے،بعض کے نزدیک قائل کو کافر کہا جائے گا اور بعض کے نزدیک کافر نہیں اور فتویٰ بھی اسی پر ہے کہ ان صورتوں میں قائل کو کافرتو نہیں کہا جائےگا، البتہ مرتکب کفر ضرور کہا جائے گا۔

لہٰذا جن صورتوں میں بالاتفاق تکفیر کی گئی ہے ان میں قائل کے لیے تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی ضروری ہے،جبکہ جن صورتوں میں تکفیر میں اختلاف ہے ان میں فقط توبہ و استغفار ضروری ہے، البتہ احتیاطاً تجدید ایمان اور نکاح بھی کر لینا چاہیے،کیا خبر کفر واقع ہونا درست ہو۔ اگر تجدید نکاح نہیں کرے گا تو احتیاط پر عمل نہ کرنے کا گناہ ہوگا،لیکن نکاح کو ختم نہیں سمجھا جائے گا۔

تنبیہ:

گزشتہ بالا تفصیل اس کلمۂ کفر کے بارے میں ہے جس کا کلمۂ کفر ہونے میں علماء کا اختلاف نہ ہو،لہٰذا اگر کسی کلمہ کے کفریہ ہونے میں اختلاف ہو یا کفریہ ہونا واضح نہ ہو بلکہ صحیح معنی اور مفہوم بھی اس کا بن سکتا ہو اور اس کا قائل کسی قسم کے کفریہ معنی و مفہوم کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں اہل فتویٰ کا اتفاق ہے کہ قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی،البتہ ایسے الفاظ سے اجتناب کے ساتھ احتیاطا تجدید نکاح وایمان کی تلقین کی جائے گی۔

البتہ اگر قائل خود ہی کفریہ معنی کے ارادے کا اقرار کرے تو ایسی صورت میں ایسے قائل کی تکفیر میں کوئی تأمل نہ کیا جائے گا۔

مذکورہ تفصیل صرف نفس مسئلہ اور اس کی حساسیت کو سمجھانے کے لیے لکھی گئی ہے،لہذا کسی کے قول یا فعل پر اس کی تطبیق صرف ماہر ومستنداہل فتوی ہی کا کام ہے،عوام کےلیےاز خود کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں،نیزآپ اپنے گھر والوں کی دینی حوالےسے ذہن سازی کی کوشش کریں،جس کا بنیادی وبہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں کسی مستند عالم وبزرگ کی مجلس میں باقاعدگی سے شریک کرانے کی کوشش کریں یا کم از کم تبلیغ کے عمل سے انہیں وابستہ کرانے کی کوشش کریں اور گھر میں فضائل اعمال اوردیگربزرگوں کے اصلاحی مواعظ کے کتابچوں کی تعلیم کا بھی اہتمام کریں اوردینی مسائل میں بحث ومباحثہ سے قطعی اجتناب رکھیں۔

حوالہ جات

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 224)

(قوله والطوع) أي الاختيار احترازا عن الإكراه ودخل فيه الهازل كما مر لأنه يعد مستخفا لتعمده التلفظ به، وإن لم يقصد معناه وفي البحر عن الجامع الأصغر: إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمدا، لكنه لم يعتقد الكفر قال بعض أصحابنا: لا يكفر لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر، وقال بعضهم: يكفر وهو الصحيح عندي لأنه استخف بدينه. اهـ. ثم قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/344)

 (الایمان) ھو تصدیق محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فی جمیع ما جاء بہ عن اﷲ تعالیٰ مما علم مجیئہ ضرورۃً۔

والکفر لغۃ الستروشرعاً تکذیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ من الدین ضرورۃ۔

 و فی الشامیۃ: قلت وقد حقق فی المسایرۃ أنہ لا بد فی حقیقۃ الإیمان من عدم ما یدل علی الاستخفاف من قول أو فعل ویأتی بیانہ۔

وفیھا أیضًا: قال فی المسایرۃ واتفق القائلون بعدم اعتبار الإقرار علی أنہ یلزم المصدق أنہ یعتقد أنہ حتی طولب بہ أتی بہ فإن طولب بہ فلم یقر بہ فہو أی کفر عن الإقرار کفر عناد، وھذا ما قالوا: إن ترک العناد شرط وفسروہ بہ … اقول: الظاھر أن المراد بالاشتراط المذکور نفی اعتقاد عدمہ ای أن لا یعتقد أنہ متی طولب بہ لا یقر الخ۔

تفسير الألوسي = روح المعاني (1/ 129)

وأما ساداتنا الحنفية رضي الله تعالى عنهم فلم يشترطوا في الإكفار سوى القطع بثبوت ذلك الأمر الذي تعلق به الإنكار لا بلوغ العلم به حد الضرورة وهذا أمر عظيم وكأنه لذلك قال ابن الهمام: يجب حمله على ما إذا علم المنكر ثبوته قطعا لأن مناط التكفير التكذيب أو الاستخفاف

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 561)

بل بنوع شبهة وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته لكونه عن تأويل وشبهة بدليل قبول شهادتهم، إلا الخطابية ومنا من كفرهم (وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق

 (قوله وكل من كان من قبلتنا لا يكفر بها) أي بالبدعة المذكورة المبنية على شبهة إذ لا خلاف في كفر المخالف في ضروريات الإسلام من حدوث العالم وحشر الأجساد ونفي العلم بالجزئيات وإن كان من أهل القبلة المواظب طول عمره على الطاعات كما في شرح التحرير

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 262)

وإنما لم نكفرهم لكونه عن تأويل وإن كان باطلا،بخلاف المستحيل بلا تأويل كما مر في باب الإمامة.

 (قولہ: من ھزل بلفظ کفر) أی تکلم بہ باختیارہ غیر قاصد معناہ، وھذا لا ینافی ما مرّ أن الایمان ھو التصدیق فقط أو مع الإقرار، لأن التصدیق وإن کان موجودًا حقیقۃً لکنہ زائل حکما، لأن الشارع جعل بعض المعاصی أمارۃ علی عدم وجودہ کالہزل المذکور وکما لو سجد لصنم أو وضع مصحفًا فی قادورۃ فإنہ یکفر وإن کان مصدقًا، لأن ذلک فی حکم التکذیب کما أفادہ فی شرح العقائد، وأشار إلی ذلک بقولہ (للاستخفاف) فإن فعل ذلک استخفاف واستہانۃ بالدین، فہو أمارۃ عدم التصدیق … وکذا مخالفۃ أو انکار ما أجمع علیہ بعد العلم بہ لأن ذلک دلیل علی أن التصدیق مفقود ، ثم حقق أن عدم الإخلال بہذہ الأمور أحد أجزاء مفہوم الإیمان، فھو حنیئذ التصدیق والإقرار وعدم الإخلال بما ذکر بدلیل أن بعض ھذہ الأمور تکون مع تحقق التصدیق والإقرار ۔ ثم قال: ولاعتبار التعظیم المنافی للاستخفاف کفر الحنفیۃ بألفاظ کثیرۃ وأفعال تصدر من المنہتکین لدلا لتہا علی الاستخفاف بالدین کالصلاۃ بلا وضوء عمدًا بل بالمواظبۃ علی ترک سنۃ استخفافا بہا بسبب أنہ فعلہا النبي زیادۃ أو استقباحہا کمن استقبع من آخر جعل بعض العمامۃ تحت حلقہ أو احفاء شاربہ اھـ۔

قلت: ویظہر من ھذا أن ما کان دلیل الاستخفاف یکفر بہ وإن لم یقصد الاستخفاف، لأنہ لو توقف علی قصدہ لما احتاج إلی زیادۃ عدم الإخلال بما مر لأن قصدا الاستخفاف مناف للتصدیق۔

 (قولہ تکذیبہ) المراد بالتکذیب عدم التصدیق الذی مر أی عدم الإذعان والقبول … ولیس المراد التصریح بأنہ کاذب فی کذا، لأن مجرد نسبۃ الکذب الیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کفر، وظاھر کلامہ تخصیص الکفر بجحدا لضروری فقط مع أن الشرط عندنا ثبوتہ علی وجہ القطع وإن لم یکن ضروریا بل قد یکون بما یکون استخفافًا من قول أو فعل کما مرّ۔ ولذا ذکر فی المسایرۃ أن ما ینفی الاستسلام أو یوجب التکذیب فہو کفر الخ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/345)

 (قولہ قال فی البحر الخ) سبب ذلک ما ذکرہ قبلہ بقولہ: وفی جامع الفصولین: روی الطحاوی عن أصحابنا: لا یخرج الرجل من الإیمان إلا جحود ما أدخلہ فیہ ثم ما تیقن إنہ ردۃ یحکم بہا وما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بھا، إذ الإسلام الثابت لا یزول بالشک مع أن الإسلام یعلو وینبغي للعالم إذا رفع إلیہ ھذا أن لا یبادر بتکفیر أھل الإسلام مع أنہ یقضي بصحۃ إسلام المکرہ أقول: قدمت ھذا لیصیر میزانًا فیما نقلتہ فی ھذا الفصل من المسائل فإنہ قد ذکر فی بعضھا: انہ کفر، مع أنہ لا یکفر علی قیاس ھذہ المقدمہ، فلیتأمل اھـ ما فی جامع الفصولین۔

وفی بعض الفتاوی الصغری: الکفر شیء عظیم فلا أجعل المؤمن کافراً متی وجدت روایۃ أنہ لا یکفر اھـ وفی الخلاصۃ وغیرھا: إذا کان فی المسئلۃ وجوہ توجب الکفر ووجہ واحد یمنعہ، فعلی المفتی أن یمیل إلی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینًا للظن بالمسلم۔ زاد فی البزازیۃ: إلا إذا صرح بإرادۃ موجب الکفر فلا ینفعہ التأویل ح۔

وفی التاترخانیۃ: لا یکفر بالمتحمل، لأن الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیتدعی نہایۃ فی الجنایۃ ومع الاحتمال لا نہایۃ اھـ والذی تحرر أنہ لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن۔ أو کان فی کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ، فعلی ھذا أکثر الفاظ التکفیر المذکورۃ لا یفتنی بالتکفیر فیہا، ولقد ألزمت نفسی أن لا أفتی بشیء منہا اھـ کلام البحر باختصار۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/345)

 (و) اعلم أنہ لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان فی کفرہ خلاف ولو کان ذلک روایۃ ضعیفۃ کما حررہ فی البحر وعزاہ فی الأشباہ إلی الصغری الخ۔

  (قولہ لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن) ظاھرہ أنہ لا یفتی بہ من حیث استحقاقہ للقتل ولا من حیث الحکم ببینونۃ زوجتہ … نعم سیذکر الشارح أن ما یکون کفراً اتفاقًا یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح اھـ وظاھرہ أنہ أمر احتیاط

قولہ (ولو روایۃ ضعیفۃ) قال الخیر الرملی: أقول: ولو کانت الروایۃ لغیر أھل مذھبنا، ویدل علی ذلک اشتراط کون ما یوجب الکفر فمجمعًا علیہ اھـ۔

وقال الرافعی (قولہ قال الخیر الرملی) أقول: ولو کانت الروایۃ لغیر أھل مذہبنا الخ) وقد صرح الحموی بأنہا لو کانت تلک الروایۃ لغیر مذھبنا وجب علی المفتی المیل إلیہا وتبعہ أبو السعود الخیرالرملی ویدل علی ذلک اشتراط کون ما یوجب الکفر مجمعًا علیہ اھـ سندی۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷صفر۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب