021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک سے زائد بیویوں میں برابری ضروری ہے
74113نکاح کا بیانکئی بیویوں میں برابری کا بیان

سوال

میرے بہنوئی نے ڈیڑھ سال پہلے دوسری شادی کی ہے،ان کا ایک گھر گوادر میں ہے اور ایک کراچی میں ہے،وہ زیادہ وقت اپنی دوسری بیگم کے ساتھ گزارتے ہے،جب کراچی آنا ہوتا ہے تو اپنی دوسری بیگم کو بھی ساتھ لاتے ہے،یہاں دس دن گزار کر پھر چلے جاتے ہیں،میری بہن کا کہنا ہے کہ مجھے ان  کی دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے،لیکن وہ زیادہ وقت دوسری بیوی کے ساتھ گزارتے ہیں،کیا اس طرح وہ عدل کے تقاضے پورے کررہے ہیں،کیا شرعا ایسا کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس شخص کی ایک زائد بیویاں ہوں اس کے ذمے لازم ہے کہ نان نفقہ(کھانے پینے،لباس،رہائش) اور وقت دینے میں ان کے درمیان برابری رکھے،یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بھی ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کو عدل کی شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے اور فرمایا کہ اگر تمہیں ڈر ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک ہی پر اکتفاء کرو۔

ایک بیوی کو زیادہ وقت دینا اور دوسری کو کم دینا یا نان نفقہ میں برابری نہ کرنا شرعا ظلم ہے،حدیث میں اس پر وعید آئی ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے درمیان عدل یعنی برابری نہیں رکھی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ جھکا ہوا ہوگا۔

لہذا آپ کے بہنوئی کا مذکورہ طرز عمل شرعا بالکل بھی درست نہیں،ان کے ذمے لازم ہے کہ آئندہ کے لیے دونوں بیویوں کے درمیان برابری کا خیال رکھے اور اب تک جس کوتاہی کے وہ مرتکب ہوئے ہیں اس پر سچے دل سے توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ ساتھ اس بیوی سے بھی معافی تلافی کرے جس کی اس نے حق تلفی کی ہے،کیونکہ حقوق العباد صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے،بلکہ توبہ کے ساتھ ساتھ متعلقہ بندے سے بھی معافی تلافی ضروری ہوتی ہے۔

حوالہ جات
"سنن الترمذي " (2/ 438):
"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط".
"الدر المختار " (3/ 201):
"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا.
ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها، ويؤمر المتعبد بصحبتها أحيانا، وقدره الطحاوي بيوم وليلة من كل أربع لحرة وسبع لأمة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

10/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب