021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک سے زائد بیویوں میں برابری ضروری ہے
74139نکاح کا بیانکئی بیویوں میں برابری کا بیان

سوال

بندہ خیر محمد یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ تقریبا تیس سال پہلے بندہ نے اپنی بیٹی کی شادی میرباز کے بیٹے محمد زرین کے ساتھ کی جس سے اس کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔

محمد زرین نے پندرہ سال پہلے دوسری شادی کی،اب محمد زرین خیر محمد کی بیٹی کو گھر میں رہنے کی سہولیات نہیں دے رہا اور تقریبا پانچ چھ سال سے والدین کے گھر بٹھایا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دو بیٹیاں بھی رہ رہی ہیں۔

پوچھنا یہ تھا کہ خیر محمد کی بیٹی جو کہ محمد زرین کی بیگم ہے اور اس نے اسے طلاق نہیں دی،اس کے ساتھ دو بیٹیاں بھی ہیں تو ان کا نفقہ،علاج معالجے اور لباس کس کے ذمے ہے،شریعت کے مطابق خیر محمد یہ خرچہ محمد زرین سے لے سکتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس شخص کی ایک زائد بیویاں ہوں اس کے ذمے لازم ہے کہ نان نفقہ(کھانے پینے،لباس،رہائش) اور وقت دینے میں ان کے درمیان برابری رکھے،یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بھی ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کو عدل کی شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے اور فرمایا کہ اگر تمہیں ڈر ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک ہی پر اکتفاء کرو۔

ایک بیوی کو زیادہ وقت دینا اور دوسری کو کم دینا یا نان نفقہ میں برابری نہ کرنا شرعا ظلم ہے،حدیث میں اس پر وعید آئی ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے درمیان عدل یعنی برابری نہیں رکھی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ جھکا ہوا ہوگا۔

لہذا محمدزرین کے ذمے لازم ہے کہ آئندہ کے لیے دونوں بیویوں کے درمیان برابری کا خیال رکھے اور جس طرح دوسری بیوی کو رہائش،کھانے پینے،لباس اور دیگر سہولیات دے رہا ہے اسی طرح پہلی بیوی اور اس کی بیٹیوں کو بھی دے اور اب تک جس کوتاہی کا وہ مرتکب ہوا ہے اس پر سچے دل سے توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ ساتھ اس بیوی سے بھی معافی تلافی کرے جس کی اس نے حق تلفی کی ہے،کیونکہ حقوق العباد صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے،بلکہ توبہ کے ساتھ ساتھ متعلقہ بندے سے بھی معافی تلافی ضروری ہوتی ہے۔

البتہ گزشتہ سالوں کے نفقہ کی ادائیگی شوہر کےذمہ تب لازم ہوگی ،جبکہ نکاح کے وقت یا بعد میں باہمی رضامندی سے نفقہ کی کوئی مقدار طے کی گئی ہو کہ شوہر اتنی مدت کا اتنا نفقہ بیوی یا اس بیٹیوں کو دے گا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو گزشتہ سالوں کے نفقہ کی ادائیگی شوہر کے ذمے لازم نہیں ہوگی،کیونکہ گزشتہ نفقہ مدت گزرنے سے ساقط ہوجاتا ہے،البتہ مروت اور حسن اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ شوہر گزشتہ سالوں کا نفقہ بھی ادا کردے،تاکہ دو بیویوں کے درمیان برابری نہ کرنے کے جس گناہ کا وہ مرتکب ہوا ہے اس کا حتی الامکان ازالہ ہوسکے،جبکہ آئندہ مدت کے لیے اس کی بیوی اور بیٹیوں کے نان نفقہ کا آپ اس سے مطالبہ کرسکتے ہیں اور اس کے ذمے اس کی ادائیگی لازم ہے،نہ دینے کی صورت میں وہ سخت گناہ گار ہوگا۔

حوالہ جات
"حاشية رد المحتار" (5/ 532):
"اعلم أن نفقة الزوجة لا تصير دينا على الزوج إلا بالقضاء أو الرضا، فإذا مضت مدة قبل القضاء أو الرضا سقطت عنه، والمراد بالمدة شهر فأكثر، وكذا نفقة الولد الصغير الفقير، وأما نفقة سائر الاقارب فإنها تسقط بالمضي، ولو بعد القضاء أو الرضا، إلا إذا كانت مستدانة بأمر قاض فلا تسقط بالمضي، هذا حاصل ما قدمه الشارح في النفقات". 
"سنن الترمذي " (2/ 438):
"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط".
"الدر المختار " (3/ 201):
"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب