74146 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
جب میری خالہ کی شادی ہوئی تو میرے نانا اورنانی نے بہت سارا سامان جہیزمیں دیا اورشادی کے بعد بھی وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ سامان دیتے رہے،جس کی وجہ سے جہیز والا سامان استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اوربعد والاسامان استعمال ہوتارہا ،پھر وہ بیمارہوگئی اورعلاج کے لیے کراچی آگئی،یہاں ان کا علاج چلا،لیکن ان کی طبیعت بہت بگڑنے کی وجہ سے وہ فوت ہوگئی ،مرحومہ کے دو بیٹے ہیں جوکہ بہت چھوٹے ہیں اوران کے پاس جو زیوروغیرہ تھا انہوں نے اس سے شوہر کا کاروبارچلایاتھا ،لیکن ان کے جہیز کا سامان بالکل نیاہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا وہ بیچ کر مرحومہ کی نمازوں کا فدیہ ادا کردیا جائے؟ اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔
سائل نے فون پر بتایاکہ موت کے وقت مرحومہ کے ورثہ یہ تھے:خاوند ،والدہ اور دوبیٹے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شادی کےموقع پرلڑکی کوجوچیزیں جہیزکےطورپردی جاتی ہیں وہ عموماً والدین کی طرف سےہدیہ ہوتی ہیں،بناء بریں اگرصورت مسئولہ میں مرحومہ کےوالدین نےوہ جہیز کا سامان مرحومہ کوہدیہ کیاتھاتو اسمیں سےجو چیزیں انتقال کےوقت مرحومہ کی ملکیت میں موجود تھیں وہ اُن کاترکہ ہیں جو درج ذیل تفصیل سے تقسیم ہوگا۔
مرحومہ نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں مذکورہ سامان سمیت منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جو کچھ ساز وسامان چھوڑا ہےاور مرحومہ کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب ہو، يہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلے مرحومہ کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں ،البتہ اگر کسی نے بطور تبرع ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد مرحومہ کا وہ قرض ادا کیا جائے جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ واجب ہو۔ اس کے بعد اگر مرحومہ نے غیرِ وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو(اوراسی کے حکم میں نمازوں اور روزوں کےفدیہ کے لیےکی جانے والی وصیت بھی ہوگی،اگروصیت کی ہو) تو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی(1/3) تک اس پر عمل کیا جائے۔اس کے بعد جو ترکہ باقی بچےاس کوشرعی ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا۔
اگرفدیہ کی ادائیگی کے حوالے سے مرحومہ نے کوئی وصیت نہیں کی تو پھر اس فدیہ کی ادائیگی ترکہ سے نہیں کی جائے گی ،اس لیے کہ بچے چھوٹے ہیں جن کی جازت کااعتبارنہیں، البتہ جوورثہ بالغ ہوں جیسے خاوند وغیرہ تو اگروہ اپنے ذاتی مال سے یا وراثت میں ملنے والے اپنے حصہ سےمذکورہ فدیہ کی ادائیگی کریں تووہ ایسا کرسکتے ہیں ۔
مذکورہ بالاحقوق( کفن دفن کے متوسط اخراجات ،قرض اوروصیت اگرکی ہو) کی علی الترتیب ادائیگی کے بعد اگرآپ کی خالہ مرحومہ کےانتقال کے وقت صرف یہی ورثاء ہوں جوسوال میں مذکورہیں توکل منقولہ غیر منقولہ ترکہ میں سے مرحومہ کےخاوندکو25%،والدہ کو%16.67،پہلےبیٹے کو % 29.67اوردوسرےبیٹے کوبھی%29.67 حصہ دیا جائےگا ۔
حوالہ جات
الدر المختار - (3 / 155)
( جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعده إن سلمها ذلك في صحته ) بل تختص به ( وبه يفتى )
الفتاوى الهندية - (1 / 327)
لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها وعليه الفتوى.
حاشية ابن عابدين - (3 / 585)
فإن كل أحد يعلم أن الجهاز ملك المرأة وأنه إذ طلقها تأخذه كله وإذا ماتت يورث عنها.
قال في كنز الدقائق :
"يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..." (ص:696, المكتبة الشاملة)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ . [النساء/12]
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 20 / ص 252)
والعصبةأربعة أصناف: عصبة بنفسه وهو جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده الاقرب.
قال اللہ تعالی :
ولكم نصف ما ترك أزواجكم إن لم يكن لهن ولد فإن كان لهن ولد فلكم الربع مماتركن من بعد وصية يوصين بها أو دين
سیدحکیم شاہ عفی ونہ
دارالافتاء جامعة الرشید
12/2/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |