03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی وارث کا تقسیمِ میراث سے مانع بننا
74147میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

 اگرایک خاتون فوت ہوجائے اوراس کے ورثہ میں سے کوئی وارث میراث تقسیم کرنےپر راضی نہ ہواورتقسیم سےمانع ہوتو شریعت میں اس کا کیاحکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جووارث تقسیم سے انکاری ہے اس کوسخت گناہ ہوگا،جو شخص کسی وارث کی میراث کو روکے رکھتاہے  وہ درحقیقت اللہ تعالی کے فیصلے کو ناپسند کرتا ہے اور اسے بدلتا ہے اور یہ  بہت بڑا جرم ہے۔ سورۂ نساء میں میراث کے سارے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِینَ فِیْہَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ. وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِینٌ.(۴:۱۳۔۱۴(

’’یہ اللہ کی بتائی ہوئی حدیں ہیں، (اِن سے آگے نہ بڑھو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، اُنھیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی بتائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنھیں ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔‘‘

حضرت سلیمان بن موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

«من قطع ميراثا فرضه الله، قطع الله ميراثه من الجنة» سنن سعيد بن منصور (١/ ١١۸)

جس نےاللہ تعالی کی مقرر کی ہوئی﴿ اپنے وارث کی﴾ میراث کو کاٹ دیااللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کاٹیں گے۔

حوالہ جات

مسند أحمد مخرجا (34/ 299):

عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، قال: كنت آخذا بزمام ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم في أوسط أيام التشريق، أذود عنه الناس، فقال: «يا أيها الناس، هل تدرون في أي يوم أنتم؟ وفي أي شهر أنتم؟ وفي أي بلد أنتم؟» قالوا: في يوم حرام، وشهر حرام، وبلد حرام، قال: «فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، إلى يوم تلقونه» ، ثم قال: " اسمعوا مني تعيشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه.

وفی السنن الكبرى للبيهقي (۳/ ۵١٦):

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت عنده مظلمة لأخيه من عرضه، أو ماله؛ فليؤدها إليه قبل أن يأتي يوم القيامة، لا يقبل فيه دينار ولا درهم؛ إن كان له عمل صالح أخذ منه، وأعطي صاحبه، وإن لم يكن له عمل صالح أخذ من سيئات صاحبه؛ فحملت عليه ". رواه البخاري في الصحيح عن آدم بن أبي إياس، عن ابن أبي ذئب بمعناه إلا أنه قال: " فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم ".

سیدحکیم شاہ عفی ونہ

دارالافتاء جامعة الرشید

 12/2/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب