74155 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
ہندہ (فرضی نام )کا نکاح والدہ نے (والد حیات نہیں تھے)لڑکے (عبد لواحد )کے گھروالوں کے بیان سے متاثر ہوکر عبد الواحد سے کرایا تھا عبدالوحد کے گھروالوں نے کہا تھا کہ لڑکا صحیح سالم ہے اوراس وقت باہر ملک ہے ، نیک ،صالح اوربااخلاق ہے یعنی لڑکے میں کوئی نقص نہیں ہے، جبکہ بعد میں معلوم ہوا کہ لڑکاایک پاؤں سے معذورہے ،لنگڑاہے اورساتھ ساتھ بھولاپن بھی اس میں ہے اورغیر ذمہ دار(بیوی،بچوں کے پالنے کے قابل نہیں)بھی ہے۔
واضح رہے کہ جس وقت نکاح کی بات چل رہی تھی تو اس وقت صرف ہندہ کی والدہ موجود تھی بھائی وغیرہ موجود نہیں تھے اورنہ لڑکی اورنہ اس کے بھائی اس نکاح پرراضی تھے بعد میں نکاح کے وقت اگرچہ بھائیوں کوپتہ چل گیا تھا کہ لڑکا معذوراوربھولابھالا ہے، لیکن لڑکے کے بااخلاق ہونے کی وجہ سے اوروالدہ کے مجبورکرنے پر نکاح کرایا، اب پتہ چلا کہ لڑکا اانتہائی بداخلاق اوربے نمازی بھی ہے، اس وجہ سے عبدالواحداورہندہ کے گھر واں کے درمیان حالات (تعلقات)انتہائی خراب ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے آگے رشتہ نبہانا ناممکن ہے ،لڑکی کا رخصت ہوکراس گھر میں جانااورزیادہ دشمنی کوجنم دینے کا باعث ہوگا ۔
اب مطلوب یہ ہے کہ جب لڑکے کے اندر مذکوربالاصفات (معذورہونا ،بھولاپن اورغیرذمہ ارہونا)موجود ہیں اورلڑکے والوں کی طرف سے غلط بیان ہوئی ہے تو اب شرعاًوقانونا ًفسخِ نکاح کی کوئی صورت ہے یا؟خلاصی کی کوئی اورصورت ہو تو برائے کرم ضروررہنمائی فرمائیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ نکاح کا رشتہ باہم الفت و محبت اور اعتماد کی بنیادوں پر استوار کیا جانا چاہیے۔ اس کے ذریعے دو انسان، جو بسا اوقات ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں ، ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی رفاقت میں زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں ۔ نیز ان کے ذریعے دو خاندانوں میں قریبی تعلقات پیدا ہوتے ہیں ، اس لیے اس کی استواری میں دھوکہ دہی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان:۱۰۲)ترجمہ:’’جس شخص نے دھوکہ دیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ ایک موقعے پر اللہ کے رسول ﷺ بازار میں نکلے۔ راستے میں ایک شخص غلّہ کا ایک ڈھیر لگائے بیچ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ڈھیر کے اندر اپنا ہاتھ ڈالا تو کچھ نمی محسوس ہوئی۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا؟ غلّہ کے مالک نے بتایا کہ بارش میں کچھ غلّہ بھیگ گیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے اسے اوپر کیوں نہیں رہنے دیا کہ لوگوں کی نظر میں ہوتا۔ پھر آپؐ نے وہ بات فرمائی، جسے اوپر نقل کیا گیا ہے۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں :
’’جب نبی ﷺ نے سامان فروخت کرنے والے پر اپنے سامان کا عیب چھپانا حرام قرار دیاہے تو نکاح کے معاملے میں عیب چھپانا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے۔ (زاد المعاد، ۵/۱۸۵)
دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ نکاح طے کرنے سے قبل دونوں فریق ممکنہ حد تک تحقیقات کرلیں ۔ بسا اوقات جلد بازی، جذبات، بے جا اعتماد یا دیگر اسباب کی وجہ سے مکمل کئےبغیر رشتہ کرلیا جاتا ہے، اورپھربعد میں ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جن کی بنا پر رشتوں میں کشیدگی، تلخی اور تنازعہ پیدا ہوناشروع ہوجاتا ہے جو بسا اوقات علیحدگی پر منتج ہوتا ہے۔ جب ہم زندگی کے ہر معاملے میں احتیاط، چھان پھٹک اور تحقیق کو ملحوظ رکھتے ہیں تو نکاح کی پائیداری اور استحکام کے مقصد سے اس معاملے میں بھی ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد سے ہمیں اس سلسلے میں رہ نمائی ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَخَیَّرُوْا لِنُطَفِکُمْ۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب الأکفاء حدیث: ۱۹۶۸، حسّنہ الألبانی)
ترجمہ :اپنے نکاح کے لیے اچھے سے اچھا رشتہ تلاش کرو۔
اس تمہیدکے بعدآپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
مسئولہ صورت میں باقی اوصاف کے بارے میں تو نکاح کے وقت پتہ چل گیا تھالہذا ان میں تو تغریر اوردھوکہ دیہی کاپہلونہیں،جہاں تک دو اوصاف یعنی خوش خلقی اورنمازی ہونے کاتعلق ہےتو ان کے بارے میں دھوکہ دیہی اورتغریر سے کام لیاگیا ہے کیونکہ بقول سائل ان کو بتایا گیا تھاکہ لڑکا خوش اخلاق ہےجبکہ وہ انتہائی بداخلاق تھا،انہیں گیا تھا کہ وہ نمازی ہےجبکہ وہ بے نمازی تھا ۔
خوش خلقی اگرچہ نکاح میں ایک مرغوب وصف ہے،اوراس حوالے سےدوسرے فریق کو دھوکہ میں ڈالنا سخت گناہ ہے جس سے توبہ اوراستغفارلازم ہے، تاہم اس کےخلاف ظاہرہونے سے عورت کو نکاح فسخ کرانے کا اختیارنہیں ہوتا،اس لیے کہ کسی بھی فقیہ نے اس کو فسخِ نکاح کے اسباب میں شمارنہیں کیا۔
جہاں تک بے نمازی ہونے کا تعلق ہے توچونکہ اس کا تعلق دیانت سےہے جوکہ اُن اوصاف میں سےہے جن کا شریعت نے کفؤ میں اعتبار کیاہے، لہذا اس کے نہ ہونے یااس حوالے سے دھوکہ دیہی سےنکاح غیرکفؤ میں ہوتاہے جس کی وجہ سے راجح قول کے مطابق لڑکی کے اولیاء کو نکاح فسخ کرانے کا اختیارہوتاہے۔
لہذا مسئولہ صورت میں اگرواقعةً لڑکا نکاح کے وقت بے نمازی تھا اورپھربھی اس کے اولیاءنےلڑکی کے اولیاء کو دھوکہ میں رکھااوراس کو نمازی بتاکرنکاح کروایا تو اگرلڑکی کے اولیاء عدالت سے فسخِ نکاح اس بناء پر کرائیں کہ یہ غیر کفؤمیں نکاح ہواہے اورعدالت اس بناء پر فسخِ نکاح کی ڈگری جاری کردے تو اس کو معتبرہونا چاہئے۔
حوالہ جات
سنن البيهقي الكبرى - (ج 7 / ص 82)
عن أبي حاتم المزني قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه { إلا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد كبير } وفي رواية وفساد عريض قالوا يا رسول الله وإن كان فيه قال إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه قالها ثلاث مرات.
تحفة الأحوذي للمبار كفوري - (ج 4 / ص 173)
قوله ( إذا خطب إليكم ) أي طلب منكم أن تزوجوه امرأة من أولادكم وأقاربكم ( من ترضون ) أي تستحسنون ( دينه ) أي ديانته ( وخلقه ) أي معاشرته ( فزوجوه ) أي إياها ( إلا تفعلوا ) أي إن لم تزوجوا من ترضون دينه وخلقه وترغبوا في مجرد الحسب والجمال أو المال ( وفساد عريض ) .... ومذهب الجمهور أنه يراعى أربعة أشياء الدين والحرية والنسب والصنعة فلا تزوج المسلمة من كافر ولا الصالحة من فاسق.
شرح سنن أبي داود - عبدالمحسن العباد - (ج 1 / ص 2)
(بين المسلم وبين الكفر أو الشرك ترك الصلاة)، وقال: (من تركها فقد كفر)، وذكر الولاة الذين يتولون وهم ظلمة وفيهم فسق فقال له الصحابة: أفلا ننابذهم بالسيف؟ فقال: (لا ما صلوا)، وهذا يدل على أن عدم الصلاة كفر، وأنهم إذا كانوا لا يصلون، وأنهم تاركون للصلاة فإنهم أتوا الكفر الذي يستحقون به الخروج عليهم، فهذا يدلنا على أن الصلاة المفروضة لازمة، وأن تركها كفر، وأما الجماعة فتركها معصية كبيرة وذنب كبير، ولا يقال له: كفر، وإنما الكفر في ترك الصلاة وعدم الإتيان بها في المسجد ولا في البيت، والعياذ بالله.
درر الحكام شرح غرر الأحكام - (ج 3 / ص 422)
ترك الصلاة والصيام معصية والمعصية تبقى بعد الردة .
البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 8 / ص 180)
قالوا لا يكون الفاسق كفؤا للصالحة بنت الصالحين ) لفظ الصالحة زائد من الكاتب فإن الذي في شروح الهداية كالفتح والمعراج وغاية البيان لو نكحت امرأة من بنات الصالحين فاسقا كان للأولياء حق الرد ......... فليس فاسق كفؤا لبنت صالح ما نصه وهي صالحة ، وإنما لم يذكر ؛ لأن الغالب أن تكون البنت صالحة بصلاحه ا هـ ....( قوله : وظاهر كلامهم أن التقوى معتبرة إلخ ) قال في النهر صرح بهذا في إيضاح الإصلاح على أنه المذهب.
الدر المختار للحصفكي - (ج 3 / ص 97)
(و) تعتبر في العرب والعجم (ديانة) أي تقوى، فليس فاسق كفؤا لصالحة أو فاسقة بنت صالح معلنا كان أو لا على الظاهر.
حاشية رد المحتار - (ج 3 / ص 98)
إذا كانت صغيرة فزوجها أبوها من فاسق: فإن كان عالما بفسقه صح العقد، ولا خيار لها إذا كبرت، لان الاب له ذلك ما لم يكن ماجنا كما مر في الباب السابق، وأما إذا كان الاب صالحا وظن لزوج صالحا فلا يصح.......قال في البزازية: زوج بنته من رجل ظنه مصلحا لا يشرب مسكرا فإذا هو مدمن فقالت بعد الكبر: لا أرضى بالنكاح: إن لم يكن أبوها يشرب المسكر، ولا عرف به وغلبة أهل بيتها مصلحون فالنكاح باطل بالاتفاق ا ه.
فاغتنم هذا التحرير فإنه مفرد.
درر الحكام شرح غرر الأحكام - (ج 4 / ص 100)
(و ) تعتبر أيضا ( ديانة ، فليس فاسق كفؤا لصالحة أو بنت صالح.
شرح الوقاية لعلي الحنفي - (ج 3 / ص 255)
(وديانة) أي تقوى، لأنها من أعلى المفاخر، لأن المرأة تعير بفسق زوجها ما لا تعير بضعة نسبه.(فليس فاسق) وإن لم يكن معلنا (كفؤا لبنت صالح) هذا قول أبي حنيفة وأبي يوسف.
عن عبد الرزاق عن الثوري قال لو أن رجلا أتى قوما فقال إني عربي فتزوج إليهم فوجدوه مولى كان لهم أن يردوا نكاحه وإن قال أنا مولى فوجدوه نبطيا رد النكاح (مصنف عبدالرزاق لأبو بكر الصنعاني ج 6 / ص 154)
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
13/2/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |