021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کورٹ میرج کےبعد سسرال والوں کا لڑکی کو عدالتی خلع پر مجبور کرنا
74148نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے،میں ایاز احمد ولد امجد علی نے الماس یونس بنت محمد یونس سے حیدرآباد میں کار میں بیٹھ کرنکاح کیا تھا،اس کار میں ایک وکیل صاحب،ایک قاضی اور ہم دونوں موجود تھے،ٹوٹل چار افراد تھے،قاضی صاحب نے نکاح کا خطبہ پڑھایا اور ہم دونوں سے پوچھا کہ آپ دونوں کو نکاح قبول ہے،ہم دونوں نے کہا کہ قبول ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح نکاح منعقد ہوگیا یا نہیں؟  ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی،لیکن ہمارے درمیان تعلقات قائم ہوچکے ہیں،ہم نے یہ نکاح کورٹ میرج کے ذریعے کیا ہے،لیکن میرے سسرال والے اس نکاح کو نہیں مان رہے اور میری بیوی کو کورٹ لے گئے ہیں،میرے خلاف خلع کا کیس دائر کردیا ہے،آیا اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی یا نہیں؟

وضاحت:لڑکا اور لڑکی دونوں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،آپس میں رشتہ دار ہیں اور دینی لحاظ سے بھی برابر ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح والدین اور اولیاء بلکہ تمام قریبی رشتہ داروں کو شامل کرکے انجام دینا چاہیے،کیونکہ شادی کوئی عارضی اور وقتی چیز نہیں،بلکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے،اس لیے اس کی انجام دہی میں کے لیے غور وفکر،تجربہ اور بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تمام چیزیں بالعموم ایک لڑکے اور لڑکی کے فیصلے میں نہیں پائی جاتیں،کیونکہ عموما لڑکا اور لڑکی محض وقتی محبت اور جذباتی کیفیت کی بنیاد پر یہ اقدام کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ والدین کو اعتماد میں لیے بغیر کیے جانے والے عدالتی نکاح دونوں خاندانوں کے درمیان بہت سی ناچاقیوں اور اختلافات کا سبب بنتےہیں اورعمومانوبت طلاق یا قتل و قتال تک پہنچ جاتی ہے،جس کے نتیجے میں دونوں خاندان ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کےدشمن بن جاتے ہیں،اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

تاہم اس کے باوجود اگر کسی بالغ لڑکے اوربالغ لڑکی نے والدین کو اعتماد میں لیے بغیر عدالت جاکر نکاح کرلیا تو اگر لڑکا حسب نسب،مالداری اور دینداری میں لڑکی کے ہم پلہ ہویعنی لڑکی اورلڑکےدونوں کا تعلق معاشرےمیں ہم رتبہ سمجھے جانےوالےخاندانوں سے ہو،لڑکا لڑکی کے مہر اور نان نفقہ کی ادائیگی پر قادر ہو،کردار اور سیرت کے لحاظ سے بھی دونوں ایک جیسے ہوں یعنی یا تو دونوں دیندار ہوں یا دونوں فاسق، ایسی صورت میں عدالت میں کیا گیا نکاح منعقد ہوجائےگا،لیکن والدین کی نافرمانی کا گناہ ہوگا۔

چونکہ آپ حسب نسب،مالداری اور دینداری میں لڑکی کے ہم پلہ ہیں،اس لیے اگرآپ لڑکی کے مہر اور نان نفقہ کی ادائیگی پر بھی قادر ہیں  تو مذکورہ نکاح منعقد ہوچکا ہے،لہذا اب جب تک آپ اسے طلاق نہ دے دیں یا اپنی رضامندی سے اسے خلع نہ دے دیں وہ بدستور آپ کے نکاح میں رہے گی،بغیر کسی معقول عذر کے یکطرفہ طور پر خلع کا عدالتی فیصلہ شرعا معتبر نہیں ہوگا۔

تاہم اگر نکاح میں مہر مثل (یعنی شکل و صورت،سیرت اور عمر میں خاندان کے اندر اس جیسی لڑکی کا عام طور پر جو مہر طے کیا جاتا ہے وہ مہر مثل کہلاتا ہے)سے کم مہر طے کیا گیا ہو تو اولیاء کو اس پر اعتراض کا حق حاصل ہوگا اور آپ کے ذمے مہر مثل کی تکمیل لازم ہوگی۔

حوالہ جات
"الهداية في شرح بداية المبتدي"(1/ 191):
" وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وإن لم يعقد عليها ولى،بكرا كانت أو ثيبا عند أبي حنيفة وأبي يوسف " رحمهما الله " في ظاهر الرواية وعن أبي يوسف " رحمه الله " أنه لا ينعقد إلا بولي وعند محمد ينعقد موقوفا " وقال مالك والشافعي رحمهما الله:لا ينعقد النكاح بعبارة النساء أصلا؛لأن النكاح يراد لمقاصد والتفويض إليهن مخل بها إلا أن محمدا رحمه الله يقول:يرتفع الخلل باجازة الولي ووجه الجواز أنها تصرفت في خالص حقها وهي من أهله لكونها عاقلة مميزة ولهذا كان لها التصرف في المال ولها اختيار الأزواج وإنما يطالب الولي بالتزويج كيلا تنسب إلى الوقاحة ثم في ظاهر الرواية لا فرق بين الكفء وغير الكفء ولكن للولي الاعتراض في غير الكفء وعن أبي حنيفة وأبي يوسف أنه لا يجوز في غير الكفء ؛لأنه كم من واقع لا يرفع ويروي رجوع محمد إلى قولهما ".
"الدر المختار " (3/ 21):
"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر".
"الدر المختار " (3/ 94):
"(ولو نكحت بأقل من مهرها فللولي) العصبة (الاعتراض حتى يتم) مهر مثلها (أو يفرق) القاضي بينهما دفعا للعار".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ : (قوله فللولي العصبة) أي لا غيره من الأقارب ولا القاضي لو كانت سفيهة، كما في الذخيرة نهر. والذي في الذخيرة من الحجر المحجور عليها إذا تزوجت بأقل من مهر مثلها ليس للقاضي الاعتراض عليها لأن الحجر في المال لا في النفس. اهـ. بحر.
قلت: لكن في حجر الظهيرية إن لم يدخل بها الزوج قيل له أتم مهر مثلها، فإن رضي وإلا فرق بينهما وإن دخل فعليه إتمامه ولا يفرق بينهما لأن التفريق كان للنقصان عن مهر المثل وقد انعدم حين قضى لها بمهر مثلها بالدخول. اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

13/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب