021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رنگ کے ڈبوں میں موجود ٹوکن کی شرعی حیثیت اور اس کے حق دار کا تعین
74229خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میری پینٹ کی دکان ہے۔ اس وقت پینٹ کی (تقریبا) تمام کمپنیاں ڈبوں میں ٹوکن ڈالتی ہیں۔ اس حوالے سے ٹوکن کی شرعی حیثیت بتائی جائے۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ یہ مسئلہ ہم نے جامعہ دار العلوم کراچی بھی بھیجا تھا، وہ جواب بھی منسلک ہے۔ لیکن آپ سے مزید تحقیق کی درخواست ہے، بالخصوص کمپنی کا رنگ ساز کے لیے یہ ٹوکن رکھنا جبکہ قیمت اصل خریدار ادا کرتا ہے۔  سائل نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ:

  • یہ مسئلہ بہت عام ہے، پاکستان میں رنگ بنانے والی تمام کمپنیاں (سوائے ایک آدھ کے) ڈبوں میں ٹوکن رکھتی ہیں۔ پینٹ مارکیٹ کی مجموعی رقم کا اگر حساب لگایا جائے تو ٹوکن اس کا بہت بڑا حصہ بنتا ہے۔
  • پہلے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ڈبے میں موجود ٹوکن پر کتنی رقم لکھی ہوگی۔  ایم ایم اے کے دورِ حکومت میں ہم نے دیر لوئر کے اپنے ایم این اے مولانا احمد غفور غواص صاحب سے یہ مسئلہ بیان کیا، انہوں نے قومی اسمبلی میں اس پر تحریکِ التواء پیش کی، اس کا اتنا فائدہ ہوا کہ اس کے بعد سے کمپنیوں نے ڈبوں پر ٹوکن کی رقم لکھنا شروع کردیا کہ اس ڈبے میں اتنی رقم کا ٹوکن رکھا ہوا ہے جس کی ایک تصویر منسلک ہے۔
  • رنگ بنانے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یہ ٹوکن ہم اپنے منافع سے رنگ ساز کے لیے رکھتے ہیں؛ تاکہ وہ ہمارا رنگ استعمال کرے، چنانچہ یہ ٹوکن رنگ ساز لیتا ہے۔  
  • ہمیں اس میں یہ اشکال رہتا ہے کہ اس میں کہیں اصل خریدار کا نقصان تو نہیں؛ کیونکہ رنگ کی قیمت تو وہی ادا کرتا ہے۔  
  • اصل خریدار بھی رنگ ساز کے ٹوکن لینے سے ناراض ہوتے ہیں؛ اس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ بغیر ٹوکن کے رنگ خریدیں، لیکن عام طور پر اچھی کوالٹی کے رنگ ٹوکن کے بغیر نہیں آتے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق پینٹ کے گیلن یا ڈرم میں موجود ٹوکن کی شرعی حیثیت انعام اور تبرع کی ہے جو کہ درست ہے، بشرطیکہ ٹوکن رکھنے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکہ اور لالچ دے کر خراب پینٹ نہ بیچا جائے، اور مارکیٹ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے (Competition) کے لیے انعامات تقسیم کرنے کے حوالے سے جو جائز ملکی قوانین ہیں، ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔

 جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ٹوکن کا حق دار کون ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ:

(1)۔۔۔۔ اگر رنگ ساز اپنے پیسوں سے رنگ خرید کر رنگ کرتا ہو اور رنگ کروانے والے سے رنگ اور اپنی محنت کا ایک مجموعی معاوضہ لیتا ہو (جیساکہ ٹھیکہ کے معاملات میں ہوتا ہے) تو اس صورت میں   رنگ ساز ہی ٹوکن کا حق دار ہوگا؛ کیونکہ خریدار بھی وہی ہے۔  

(2)۔۔۔ لیکن اگر رنگ ساز صرف رنگ سازی کا کام کرے، اور رنگ، رنگ کروانے والا خود خریدے یا رنگ ساز کو پیسے دے اور رنگ ساز اس کے وکیل کی حیثیت سے خریدے تو ان دونوں صورتوں میں ٹوکن کا حق دار اصل خریدار ہوگا۔ Brighto Paints کے ایک معتبر آدمی سے معلوم ہوا کہ: ٹوکن کی وجہ سے قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، اور کمپنی کا مقصد اگرچہ یہ ہوتا ہے کہ رنگ ساز ڈبہ کھولتے وقت ٹوکن لے گا تو ہمارے پاس کسٹمر لے کر آئے گا، لیکن کمپنی اس بات کا کلیم اور دعویٰ نہیں کرتی کہ یہ رنگ ساز کا حق ہے، بلکہ دکان دار یا کمپنی کے پاس جو بھی شخص ٹوکن لے کر آئے گا، وہ اسے پیسے دیں گے۔ لہٰذا جب پینٹ کے گیلن یا ڈرم کی قیمت اصل خریدار ادا کر رہا ہے تو وہ گیلن اور ڈرم اپنے تمام اجزاء سمیت اسی کی ملکیت ہوگی، اور ٹوکن کا حق دار وہی ہوگا۔  رنگ ساز کے لیے اصل خریدار کی دلی رضامندی کے بغیر یہ ٹوکن لینا جائز نہیں ہوگا۔  

اور جب پینٹ (مبیع) کی قیمت اصل خریدار ادا کر رہا ہے تو اس بات کا کوئی اعتبار نہیں کہ یہ ٹوکن کمپنی منافع میں سے رکھتی ہے۔ چنانچہ 11 اگست 2011 کو  Competition Commission of  Pakistan (CCP) نے پینٹ کی 16 کمپنیوں کو کپیٹیشن ایکٹ 2010 (Competition Act, 2010) کے سیکشن 10 کی خلاف ورزی کرنے،  پینٹرز کے لیے ٹوکن چھپانے اور اصل خریدار (End Consumers) کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے شو کاز نوٹسز جاری کیے تھے؛ کیونکہ ٹوکن رکھنے والی کمپنیوں پر قانونا ٹوکن کی رقم پینٹ کے ڈبوں اور ڈرموں کے اوپر لکھنا لازم ہے۔

 شوکاز نوٹسز کی یہ خبر CCP ISSUES SHOW CAUSE NOTICES TO 16 PAINT COMPANIES

 کے عنوان سے CCP کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ 11 اگست 2011 کے ڈان نیوز میں بھی یہ خبر شائع ہوئی تھی۔         

اب چونکہ مارکیٹ میں یہ غلط خیال پھیل گیا ہے کہ یہ ٹوکن رنگ ساز کے لیے رکھا جاتا ہے، اوراس میں کمپنیوں کا بھی کردار ہے؛ اس لیےاس کی تلافی اور سدِّ باب بھی ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ لہٰذا ٹوکن رکھنے والی کمپنیوں کو چاہیے کہ پینٹ کے ڈبوں اور ڈرموں پر ٹوکن کی رقم کے ساتھ یہ بھی لکھیں کہ یہ ٹوکن اصل خریدار کا حق  ہے، رنگ ساز کا نہیں۔ تاکہ کمپنیوں کی طرف سے کوئی دھوکہ دہی، اور تلبیس نہ ہو، بلکہ رنگ ساز اور اصل خریدار دونوں حقیقتِ حال سے واقف ہوں۔ اگر اس کے باوجود رنگ ساز اصل خریدار کی اجازت کے بغیر ٹوکن خود لے گا تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا، کمپنی اس کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔ ڈیلر اور دکان دار کو بھی چاہیے کہ اگر اس کے پاس کوئی پینٹر آتا ہے تو اسے آگاہ کرے کہ ٹوکن اصل مالک اور خریدار (جو قیمت ادا کرتا ہے) کا حق ہے۔    

حوالہ جات
بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة (2/158) :
1-الجوائز علی شراء المنتجات:
وإن النوع الأول من هذه الجوائز غالباً ما تمنح علی أساس القرعة ونحو ها،لمشتری بضاعة مخصوصة أو منتج مخصوص؛فإن کثیراً من التجّار یعلنون جوائز یوزّعونها علی جملة منتخبة من المشترین،الذین یشترون بضاعتهم،ویقع انتخاب المجازین إمّا عن طریق القرعة،أو علی    أساس أرقام الکوبونات التی توضع مع البضاعة. فمن اشتری بضاعة حصل علی کوبون، فلو وافق کوبونه الرقم المنتخب للجائزة،استحق أن یحوز الجائزة المخصّصة لذلك الرقم.
وإن حکم مثل هذه الجوائز أنها تجوز بشروط:
 الشّرط الأوّل:أن یقع شراء البضاعة بثمن مثله،ولا یزاد فی ثمن البضاعة من أجل احتمال
الحصول علی الجوائز؛وهذا لأنه إن زاد البائع علی ثمن المثل،فالمقدارالزّائد إنما یدفع من قبل المشتری مقابل الجائزة المحتملة،فصارت الجائزة بمقابل مالیّ فلم تبق تبرعاً،وإن هذا المقابل
المالی إنما وقع بالمخاطرة، فصارت العملیة قمارًا. أما إذا بیعت البضاعة بثمن مثلها، فإن المشتری قد حصل علی عوض کامل للثّمن الذی بذله ،ولم یخاطر بشیئ،فالجائزة التی یحصل علیها جائزة بدون مقابل، فیدخل فی التبرعات المشروعة.
الشرط الثانی:أن لا تتخذ هذه الجوائز ذریعة لترویج البضاعات المغشوشة؛لأن الغش و الخداع حرام لا یجوز بحال.  
الشرط الثالث:أن یکون المشتری یقصد شراء المنتج للانتفاع به،ولا یشتریه لمجرد مایتوقع
من الحصول علی الجائزة؛لأنه إن لم یکن یقصد شراء المنتج،فإن ما یبذله من الثّمن،إنما یبذله
من أجل الجائزة،فکأن فیه شبهة المخاطرة،فلایخلومن شبهة القمار.
ویدخل فی هذا النّوع جمیع الجوائز التی تمنح من قبل التجّار لعملائهم علی أساس عدد معین من التعاملات، مثل:الجوائز التی تعطیها شرکات الخطوط الجویة،والفنادق الکبیرة علی أساس النقاط التی تحسب فی حساب العمیل،وکلما بلغت هذه النقاط إلی عدد معین،استحق العمیل جائزة معلومة.
فقه البیوع (2/899):
التدلیس عند الفقهاء یطلق علی معنیین:  الأول: کتمان العیب الموجود فی المبیع، و الخیار الذی یحصل للمشتری بهذا النوع من التدلیس هو عین خیار العیب، فتجری علیه أحکامه. و المعنی الثانی للتدلیس: هو أن یفعل البائع فعلا فی المبیع یظهر منه جودة المبیع و کماله فی الصفات، و إن لم یکن ادعی ذلك الکمال صراحة، ثم یظهر أن الصفة المدلسة لیست موجودة فی المبیع.

 عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

18/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب