021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی کا رنگ کے ڈبوں میں موجود ٹوکن پر دکان دار کو اضافی رقم دینا
74230خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

رنگ کے ڈبے میں جو ٹوکن رکھے جاتے ہیں، وہ اگر مثلا 100 روپے کا ہو تو ہم دکاندار وہ ٹوکن پینٹر سے 100 روپے میں لیتے ہیں، جبکہ کمپنی ہم سے وہ 100 روپے کا ٹوکن 110 روپے میں لیتی ہے۔ اب کمپنی ہمیں جو 10 روپے اضافی دیتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ ٹوکن پر درج رقم وصول کرنے کے لیے اسی دکان دار کے پاس جانا

ضروری نہیں جس سے رنگ خریدا ہو، بلکہ اس کمپنی کا رنگ بیچنے والے کسی بھی دکان دار سے وہ رقم وصول کی جاسکتی ہے۔                          

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کمپنی کی طرف سے دکان دار کو دی جانے والی اضافی رقم کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں، ذیل میں ان

توجیہات کو ذکر کر کے درست توجیہ کی نشان دہی اور جائز متبادل لکھنے  کی کوشش کی جائے گی، ان شاء اللہ۔

پہلی توجیہ:

اس زائد رقم کی ایک فقہی تکییف "حطِ ثمن" (بائع کی طرف سے قیمت میں کمی) کی طرف بھی بعض دفعہ ذہن جاتا ہے، اس طور پر کہ جب ڈبے میں 100  روپے کا ٹوکن نکل آیا تو گویا کہ دکان دار نے قیمت کم کرکے رنگ کا یہ ڈبہ اصل قیمت سے 100 روپے کم میں فروخت کیا۔ پھر جب کمپنی دکان دار کو اس پر 110 روپے دے تو گویا کہ کمپنی نے قیمت کم کر کے یہ ڈبہ دکان دار  کو اصل قیمت سے 110 روپے کم میں فروخت کردیا۔ اور "حطِ ثمن" شرعا جائز ہے، اس لیے کمپنی کا دکان دار کو یہ اضافی رقم دینا اور اس کا لینا درست ہے۔ ]کما فی الفتوتین الصادرتین عن دار الافتاء بجامعۃ دار العلوم کراتشی، الرقم (823/28)، و (1362/26)۔[  

لیکن یہ تکییف درست نہیں ہے؛ کیونکہ "حطِ ثمن" خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان ہوتا ہے، جبکہ یہاں ٹوکن اس دکان دار کو بھی دیا جا سکتا ہے جس سے رنگ نہ خریدا ہو، اور اس صورت میں اس گاہک اور دکان دار کے درمیان اس ڈبے کی سرے سے بیع ہی نہیں ہوئی تو "حطِ ثمن" کیسے ہوگا؟ اسی طرح دکان دار نے یہ ڈبہ کمپنی سے خریدا ہی نہیں تھا تو اس ڈبے کی قیمت میں "حطِ ثمن" کیسے ہوگا؟ 

دوسری توجیہ:

دکان دار کو دی جانے والی اس زائد رقم کی دوسری فقہی تکییف "اجرت" سے کی گئی ہے۔ ]کمافی الفتوتین الصادرتین عن دار الافتاء بجامعۃ الرشید کراتشی، الرقم (57/61075) و (55/54890)۔[

لیکن یہ تکییف بھی درست نہیں؛ کیونکہ پینٹ کی معروف کمپنیPaints  Brighto کے ایک معتبر آدمی سے گفتگو کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ:

 کمپنی دکان دار کو یہ اضافی رقم اس لیے دیتی ہے کہ دکان دار کمپنی کی طرف سے ٹوکن لانے والے کو پیسے دیتا ہے، دکان دار کا کیش فلو اس کے پاس جاتا ہے، لہٰذا کمپنی اسے بطورِ ترغیب (Incentive) اضافی رقم دیتی ہے تاکہ وہ انہیں پیسے دیتا رہے۔ خاص طور پر جب دکان دار کے پاس کوئی ایسا شخص ٹوکن لائے جس نے خریداری کسی اور دکان سے کی ہو تو اسے پیسے دینے میں تأمل نہ ہو، اس کے سامنے یہ بات ہوگی کہ اگر میں اسے پیسے دیتا ہوں تو مجھے اس پر اضافی ملیں گے، اس لیے وہ بآسانی کمپنی کی طرف سے ٹوکن لانے والے کو رقم دے گا۔  اور کمپنیاں دکان دار کو اضافی رقم اس رقم کے پرسنٹیج کے لحاظ سے دیتی ہے جو دکان دار ٹوکن لانے والے کو دیتا ہے، بعض کمپنیاں 10 پرسنٹ اضافہ دیتی ہے یعنی 100 پر 10 روپے اور 500 پر 50 روپے، اور بعض کمپنیاں 25 پرسنٹ اضافی رقم دیتی ہے۔

ان کی اس گفتگو کا حاصل اور نتیجہ یہ ہے کہ دکان دار کمپنی کے کہنے پر کمپنی کی طرف سے ٹوکن لانے والے کو ادائیگی کرتا ہے (جو دکان دار کا کمپنی کے ذمے قرض بن جاتا ہے) ، پھر کمپنی دکان دار کو اس کی ادا کردہ اصل رقم واپس کرنے کے ساتھ اس کا ایک مخصوص پرسنٹیج مشروط اضافہ کے طور پر دیتی ہے۔ اور قرض پر مشروط یا معروف اضافہ لینا دینا سود کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ حرام اور ناجائز ہے۔  اس لیے اس اضافی رقم کو اجرت قرار دینا درست نہیں۔   

تیسری اور راجح توجیہ:

مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بحالتِ موجودہ کمپنی کی طرف سے دکان دار کو دی جانے والی اضافی رقم در حقیقت قرض پر مشروط اضافہ ہے جو "سود" ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔  ]کما فی الفتوتین الصادرتین عن دار الافتاء بجامعۃ دار العلوم کراتشی، الرقم (712/72)  و  (2235/53)۔[ 

جائز متبادل:

یہ تو بحالتِ موجودہ اس اضافی رقم کی فقہی تکییف اور اس کے حکم کا بیان تھا۔ لیکن ٹوکن وصول کر کے کمپنی تک پہنچانے کا عمل چونکہ دکان دار پر لازم نہیں؛ اس لیے اگر کمپنی اس معاملے کی تصحیح کر کے دکان دار کو صرف اس عمل کی اجرتِ مثل دینا چاہے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اجرت متعین کرنے میں ٹوکن کی رقم کو معیار نہ بنائے کہ زیادہ رقم کے ٹوکن پر زیادہ اجرت اور کم رقم کے ٹوکن پر کم

اجرت دے، بلکہ ٹوکن کم رقم کا ہو یا زیادہ رقم کا، دونوں کی ایک ہی اجرت متعین کی جائے۔

لہٰذا اس معاملے کی متبادل جائز صورت یہ ہے کہ کمپنی دکان دار سے کہے کہ آپ ہماری طرف سے ٹوکن لانے والے کو ٹوکن کی رقم دیا کریں، وہ ہمارے ذمے آپ کا قرض بنے گا جو ہم آپ کو اتنا ہی واپس کریں گے جتنا آپ ٹوکن لانے والے کو دیں گے۔ اس کے بعد الگ عقد کے ذریعے یہ طے کریں کہ ہمارے ٹوکن لوگوں سے وصول کر کے ہم تک پہنچانے پر ہم آپ کو اتنی اجرت دیں گے۔

واضح رہے کہ اس متبادل کا جواز ان دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے:-

  1. پہلی شرط یہ کہ اجرت کی تعیین کے لیے ٹوکن کی رقم کو معیار نہ بنایا جائے، بلکہ کم رقم اور زیادہ رقم دونوں قسم کے ٹوکن کی ایک ہی اجرت ہو۔
  2. دوسری شرط یہ کہ دو معاملات الگ الگ ہوں:

ایک معاملہ قرض کا جس میں کمپنی دکان دار سے کہے کہ آپ ہماری کمپنی کے ٹوکن لانے والے کو ہماری طرف سے ٹوکن پر لکھی ہوئی رقم دیا کریں، یہ آپ کا ہمارے ذمے قرض ہوگا جو ہم آپ کو اتنا ہی واپس کریں گے جتنا آپ نے ہماری طرف سے ادا کیا ہوگا، اور دکان دار بھی اس پر راضی ہوجائے۔

دوسرا معاملہ اجارے کا جو قرض کے معاملے سے بالکل الگ ہو، جس میں کمپنی دکان دار سے کہے کہ آپ ہمارا یہ (ٹوکن کی وصولی اور ہم تک پہنچانے کا) کام کیا  کریں، ہم آپ کو اس کی فی ٹوکن اتنی (متعین) اجرت دیں گے۔

اگر ان میں سے کسی بھی شرط کی خلاف ورزی کی جائے گی تو معاملہ ناجائز ہوجائےگا۔

حوالہ جات
مصنف ابن أبي شيبة (6/ 180):
 حدثنا حفص ، عن أشعث ، عن الحكم ، عن إبراهيم ، قال : كل قرض جر منفعة ، فهو ربا.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (1 / 25-24):
و إن حامل الکمبیالة، و هو الدائن الأصیل، ربما یبیعها إلی طرف ثالث بأقل من المبلغ المکتوب علیها؛ طمعًا فی استعجال الحصول علی المبلغ قبل حلول الأجل. و إن هذا البیع یسمی خصم الکمبیالة (Discounting     of  the  Bill)، فکلما أراد حامل الکمبیالة أن یتعجل فی قبض مبلغها ذهب إلی شخص ثالث، و هو البنك فی عموم الأحوال و عرض علیها الکمبیالة، و البنك یقبلها بعد التظهیر (Endorsement) من الحامل، و یعطی مبلغ الکمبیالة نقدًا بخصم نسبة مئویة منها.  وإن خصم الكمبيالة بهذا الشكل غير جائز شرعا، إما لكونه بيع الدين من غير من عليه الدين، أو لأنه من قبيل بيع النقود بالنقود متفاضلة ومؤجلة،
وحرمته منصوصة في أحاديث ربا الفضل.
ولكن هذه المعاملة يمكن تصحيحها بتغيير طريقها، وذلك أن يوكل صاحب الكمبيالة البنك باستيفاء دينه من المشتري (وهو مصدر الكمبيالة) ويدفع إليه أجرة على ذلك، ثم يستقرض منه مبلغ الكمبيالة، ويأذن له أن يستوفي هذا القرض مما يقبض من المشتري بعد
نضج الكمبيالة، فتكون هناك معاملتان مستقلتان:
 الأولى: معاملة التوكيل باستيفاء الدين بالأجرة المعينة.
 والثانية: معاملة الاستقراض من البنك والإذن باستيفاء القرض من الدين المرجو حصوله بعد نضج الكمبيالة.
 فتصح كلتا المعاملتين على أسس شرعية. أما الأولى، فلكونها توكيلا بالأجرة، وذلك جائز، وأما الثانية، فلكونها استقراضا من غير شرط زيادة، وهو جائز أيضا.  و لکن یجب لصحة هذه العملیة أمران:
الأول: أن لا یکون أحد العقدین شرطا للآخر، فلا یشترط فی القرض الوکالة و لا القرض فی الوکالة. و الثانی: أن لا یکون أجرة الوکالة مرتبطة بمدة نضج الکمبیالة.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

18/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب