74190 | جائز و ناجائزامور کا بیان | کھانے پینے کے مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عبداللہ شاہ غازی کے مزار،JDC،اور سیلانی کے دسترخوانوں پر کھانا کھانا کیسا ہے؟ جائز ہے یا اس میں کچھ تفصیل ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مزاروں پر اکثر غیر شرعی امور کا ارتکاب ہو رہا ہوتا ہے، مثلا مخلوط ماحول، گانا بجانا، وغیرہ تو ان چیزوں کی وجہ سےوہاں پر بلاضرورت جانا ہی درست نہیں، چہ جائیکہ وہاں پر جا کر کھانا کھایا جائے۔ہاں فاتحہ کے لیے ایسے وقت میں جا سکتا ہے جس میں اس طرح کی قباحتیں نہ پائی جائیں۔ پھر اگر ایسے موقع پر اتفاقا کبھی کھانا وغیرہ سامنے آ بھی جائے تو اس کے کھانے سے بچنا چاہیے، کیونکہ وہ بہرحال مشکوک ہوتا ہے۔ چونکہ مزاروں پر تقسیم ہونے والوں کھانوں میں غیر اللہ کی نذر و نیاز ہونے کا قوی احتمال ہوتا ہے۔
البتہ کوئی صراحت کر دے کہ یہ محض اللہ تعالی کے نام پر ہے تو پھر اس کے کھانے کی گنجائش ہوگی۔
اجتماعی دستر خوانوں میں کھانا عموما صدقے کا ہوتا ہے، لہذا مستحقین کے کھانا کھانے میں حرج نہیں ، تاہم اگر قرائن سے پتا چلے کہ اس دستر خوان کا کھانا غیر اللہ کے نام کا بھی ہو سکتا ہے تو اس سے بچنا لازم ہے۔ لیکن صرف اس پر قناعت کر کے بیٹھ جانا مناسب نہیں ہے، جس شخص کو اللہ تعالی نے کچھ کام کر کے کما کر کھانے کی صلاحیت دی ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اپنی ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے خود کما کر کھانے کی عادت بنا لے، اس عمل سے وہ دوسروں پر بوجھ نہ رہے گا اور اللہ تعالی بھی خوش ہونگے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی: إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡمَيۡتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحۡمَ ٱلۡخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيۡرِ ٱللَّهِ (البقرة: 173)
قال اللہ تعالی: لَئِن شَكَرۡتُمۡ لَأَزِيدَنَّكُمۡۖ وَلَئِن كَفَرۡتُمۡ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٞ (ابراھیم: 7)
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ (رواہ البیھقی فی شعب الایمان، حدیث نمبر: 8367)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: واعلم أن النذر الذي يقع للاموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الاولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالاجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الانام، وقد ابتلى الناس بذلك (درالمختار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و مالا یفسد: 3/427)
قال الشیخ نظام رحمہ اللہ: من دعي إلى وليمة فوجد ثمة لعبا أو غناء فلا بأس أن يقعد ويأكل……..وهذا كله بعد الحضور، وأما إذا علم قبل الحضور فلا يحضر؛ لأنه لا يلزمه حق الدعوة(الفتاوی الہندیہ،کتاب الکراھیۃ،باب الھدایا والضیافات: 5/422)
قال ابن نجیم المصری رحمہ اللہ: وَمَنْ دُعِيَ إلَى وَلِيمَةٍ وَثَمَّةَ لَعِبٌ وَغِنَاءٌ يَقْعُدُ وَيَأْكُلُ…… وَهَذَا كُلُّهُ بَعْدَ الْحُضُورِ وَلَوْ عَلِمَ قَبْلَ الْحُضُورِ لَا يَقْبَلُهُ.(البحر الرائق، کتاب الکراھیۃ، 8/346)
عبدالعظیم راحب خشک
دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
19/صفر1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعظیم بن راحب خشک | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |