021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض حسنہ دینےکے بجائے قرض خواہ پر کوئی چیز قسطوں پر بیچنا
74209خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

سلمان کو قرضہ حسنہ کی ضرورت ہو،لیکن کوئی اسے بلاعوض قرض حسنہ دینے کو تیار نہ ہو،لہذا حذیفہ ایک کمپنی(انس) سے کچھ مال کپڑے وغیرہ بیع معجل کے طور پر لے کر اپنے قبضہ و ضمان میں لانے کے بعد اس مال کو سلمان پر اپنا نفع رکھ کر بیع مؤجل کے ساتھ فروخت کردیتا ہے،پھر سلمان مال کو اپنے قبضے میں لانے کے بعد اسی کمپنی پر بیع معجل کے ساتھ فروخت کردیتا ہے جس سے حذیفہ نے اولا یہ مال خریدا تھا،خواہ اپنا نفع رکھ کر فروخت کرے یا بلانفع اور رقم وصول کرکے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے،اس معاملے کا شرعا کیا حکم ہے،خاص طور پر معاملہ ثانیہ جو سلمان اور حذیفہ کے درمیان قسطوں پر مع نفع کے ہوا ہے،آیا حذیفہ کے لیے سلمان سے یہ نفع لینا بلاکراہت جائز ہے،یا کراہت کے ساتھ جائز ہے یا پھر ناجائز ہے؟

خلاصہ مسئلہ یہ ہے کہ تین معاملات وجود میں آئے ہیں پہلا حذیفہ اور انس کے درمیان،دوسرا سلمان اور حذیفہ کے درمیان اور تیسرا انس اور سلمان کے درمیان،معاملہ اولی اور ثالثہ نقد پر،جبکہ معاملہ ثانیہ قسطوں پر مع نفع کے طے ہوا ہے اور تینوں صورتوں میں قبضہ متحقق ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ صورت جائز تو ہیں،لیکن خلاف اولی ہے،کیونکہ اس میں ایک مسلمان بھائی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر نفع حاصل کرنا ہے جو شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں۔

جبکہ اس صورت کو اختیار کرنے کے بجائے اگر ایسے شخص کو جسے قرض کے طور پر رقم کی ضرورت ہو قرض حسنہ دیا جائے تو یہ زیادہ پسندیدہ اور بإعثِ اجر وثواب ہےکہ قرآن و حدیث میں قرض حسنہ کے بہت فضائل آئے ہیں۔

حوالہ جات
" الدر المختار "(5/ 73):
"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافا للشافعي (وشراء من لا تجوز شهادته له) كابنه وأبيه (كشرائه بنفسه) فلا يجوز أيضا خلافا لهما في غير عبده ومكاتبه".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ:"(قوله بنفسه أو بوكيله) تنازع فيه كل من شراء وباع. قال في البحر: وأطلق فيما باع فشمل ما باعه بنفسه أو وكيله وما باعه أصالة أو وكالة كما شمل الشراء لنفسه أو لغيره إذا كان هو البائع اهـ. فأفاد أنه لو باع شيئا أصالة بنفسه أو وكيله أو وكالة عن غيره ليس له شراؤه بالأقل لا لنفسه ولا لغيره؛ لأن بيع وكيله بإذنه كبيعه بنفسه.
والوكيل بالبيع أصيل في حق الحقوق، فلا يصح شراؤه لنفسه؛ لأنه شراء البائع من وجه ولا لغيره؛ لأن الشراء واقع له من حيث الحقوق فكان هذا شراء ما باع لنفسه من وجه، كذا يفاد من الزيلعي أيضا .
(قوله من الذي اشتراه) متعلق بشراء، وخرج به ما لو باعه المشتري لرجل أو وهبه له أو أوصى له به ثم اشتراه البائع الأول من ذلك الرجل فإنه يجوز؛ لأن اختلاف سبب الملك كاختلاف العين زيلعي، ولو خرج عن ملك المشتري ثم عاد إليه بحكم ملك جديد كإقالة أو شراء أو هبة أو إرث فشراء البائع منه بالأقل جائز لا إن عاد إليه بما هو فسخ بخيار رؤية أو شرط قبل القبض أو بعده بحر عن السراج".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

19/صفر1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب