021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنی زمین میں دوسرے کی زمین کی سابقہ نہروں کا حق ماننے سے انکار کرنا
74214بنجر زمین کو آباد کرنے کے مسائلشاملات زمینوں کے احکام

سوال

امیر جان صاحب نے اپنی زمین میں ایک متعین وقت کے لیے مرحوم توراکا( صاحب) کو ان کی خواہش اور مطالبہ پر  چھوٹی نہر گزارنے کی اجازت دی تھی، اب امیر جان کا بیٹا عبد الحق، مرحوم تو راکا(صاحب) کے بیٹوں (حکم خان اور نسیم خان )کو کہتا ہے کہ یہ نہر میری زمین سے نکال دو! یہ  تمہاراحق نہیں بنتا!اس کے بعد وقت کے مصلحین نے ان کے در میان صلح کی کہ تورا کا( صاحب )کے بیٹے  اس نہرکے گزارنے کا حق رکھتے ہیں، لیکن امیر جان کا بیٹا کہتا ہے کہ میں یہ صلح نہیں مانتا تو اس صلح کی بنیاد پر تور اکا کے بیٹے نہر گزارنے کا حق رکھتے ہیں یا کہ نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر توراکا کے بیٹے اس نہر کےموقت ہونے کو ہی تسلیم نہ کرتے ہوں(جیساکہ صورت تنازع سی یہی ظاہر ہوتا ہے) اورپہلے سے امیر جان کی زمین میں سے مرحوم تور اکا کی زمین کی طرف نہر  جاری بھی ہو تو ایسی صورت میں امیر جان کے بیٹے عبد الحق کا اس حق کے ثبوت سے انکار درست نہیں،اگرچہ متبادل بندوبست بھی ممکن ہو،لہذا امیر جان کے بیٹے کا اس نہر کےگزارنے کے حق سے انکار درست نہیں اوراگراس نہر کےموقت ہونے کو مرحوم توراکا کے بیٹے بھی مانتے ہوں تو ان پر شرعا لازم ہے کہ وعدہ کے مطابق امیرجان کی زمین کو فارغ کردیں،بشرطیکہ ان کی زمین کے لیے مناسب ومعقول متبادل  نہر کا بندوبست ہوسکے،ورنہ(اگرمناسب ومعقول متبادل کا بندوبست نہ ہوسکے)توان کے لیے اپنی زمین سیراب کرنےکا حق شرعی ہونے کی وجہ سے اس نہرکے باقی رکھنے کا حق بنتاہے،بشرطیکہ اس سے دوسروں کی زمین یا نہروں کو نقصان نہ پہنچے،اس لیے کہ ایک علاقے کی زمینوں کے لیے ایک  مخصوص بڑی مشترکہ نہر سے چھوٹی چھوٹی نہروں کے ذریعہ مشترکہ طور پرزمین سیرابی کا حق (شرب)حاصل ہوتا ہے،جس کے لیے دوسری زمین کا استعمال ایک لابدی امر ہے،جس سے انکار کا کوئی جواز نہیں اور مصلحین کا فیصلہ اگر مذکورہ تفصیل کے مطابق ہےتو درست وموافق شرع ہے۔

حوالہ جات
الھدایۃ مع فتح القدير للكمال ابن الهمام (10/ 84)
(وإذا كان نهر لرجل يجري في أرض غيره فأراد صاحب الأرض أن لا يجرى النهر في أرضه ترك على حاله) ؛ لأنه مستعمل له بإجراء مائه. فعند الاختلاف يكون القول قوله، فإن لم يكن في يده، ولم يكن جاريا فعليه البينة أن هذا النهر له، أو أنه قد كان مجراه له في هذا النهر يسوقه إلى أرضه ليسقيها فيقضي له لإثباته بالحجة ملكا له أو حقا مستحقا فيه۔
الاختيار لتعليل المختار (3/ 73)
(نهر بين قوم اختصموا في الشرب فهو بينهم على قدر أراضيهم) ؛ لأن المقصود من الشرب سقي الأرض، فيقدر بقدرها، بخلاف الطريق؛ لأن التطرق إلى الدار الواسعة والضيقة سواء.
ولو كان لبعض الأراضي ساقية، وللبعض دالية، ولا شيء للبعض، وليس لها شرب معلوم - فالشرب بينهم على قدر أراضيهم التي على حافة النهر؛ لأن المقصود من النهر سقي الأرض لا اتخاذ السواقي والدوالي، فيستوي حالهم فيما هو المقصود. ولأن الأراضي في الأصل لا بد لها من شرب، وإن كان لها شرب معروف من غير هذا النهر فلا حق له في هذا النهر.
الفتاوى الهندية (5/ 403)
ولو اختلفا في رقبة النهر فإن كان يجري فيه ماء فالقول قوله لأنه في يده بالاستعمال وإن لم يكن فيه ماء لا يقبل قوله إلا بحجة وإن أقام بينة أن له مجرى في النهر فله حق الإجراء دون الرقبة وكذا لو أقام بينة أن له مصب الماء في هذا النهر أو في هذه الأجمة كذا في الغياثية.
الفتاوى الهندية (5/ 391)
نهر لقوم ولرجل أرض بجنبه ليس له شرب من هذا النهر كان لصاحب الأرض أن يشرب ويتوضأ ويسقي دوابه من هذا النهر وليس له أن يسقي منه أرضا أو شجرا أو زرعا ولا أن ينصب دولابا على هذا النهر لأرضه وإن أراد أن يرفع الماء منه بالقرب والأواني ويسقي زرعه أو شجره اختلف المشايخ فيه والأصح أنه ليس له ذلك ولأهل النهر أن يمنعوه كذا في فتاوى قاضي خان والوجيز.وقال بعضهم لا يمنع من ذلك وهو الأصح هكذا في الهداية والكافي والتبيين والظهيرية.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۹صفر۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب