021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صرف کاغذات میں نام ہونے کی وجہ سے ملکیت کا دعویٰ
74254میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

1974ء میں والد نے اپنے نام اسٹام پر مکان خریدا۔ 1975ء میں بینک ملازم بھائی نے تعمیرِ مکان کے لیے بینک سے قرض لیا۔ بینک ملازم بھائی نے والد صاحب سے کہا کہ بینک افسران بینک سے قرض لینے کے بدلے بطورِ ضمانت اپنے نام کے کاغذات مانگ رہے ہیں۔ لہٰذا والد نے بینک ملازم بھائی کی مجبوری و ضرورت کے علاوہ حکومتی بینک کی شرائط پوری کرنے کے لیے بینک ملازم بھائی کے نام دو کنال زمین انتقال کرادی اور نصف حصۂ مکان رجسٹرڈ کرایا۔ مگر 1974ء سے اب تک مکان مشترکہ ہے جس میں رہائش پذیر ہیں؛ کیونکہ نصف حصۂ مکان صرف کاغذات میں بینک ملازم بھائی کے نام ہے؛ اس لیے کہ والد نے اسے زندگی میں نصف حصۂ مکان الگ کر کے حوالہ نہیں کیا، نہ ہی قبضہ دیا ہے۔ بینک ملازم بھائی نصف حصۂ مکان کو ذاتی قرار دے رہا ہے، جبکہ دیگر بہن بھائیوں کو نصف حصۂ مکان میں حصہ دینے سے انکاری ہے، اس کے علاوہ باقی نصف حصۂ مکان میں بھی حصہ لینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ بینک ملازم بھائی کے نام نصف حصۂ مکان میں دیگر بہن بھائی شرعا حصہ دار ہیں یا نہیں؟ اور باقی نصف حصۂ مکان میں اس کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں؟

 براہِ مہربانی تحریر فتویٰ جاری فرمائیں؛ تاکہ ہمارے پاس بطورِ ثبوت موجود ہو اور برادرانہ باہمی تنازع کا خاتمہ ممکن ہو سکے، بصورتِ دیگر عدالت میں بھی پیش کیا جاسکے۔ بینک ملازم بھائی کے نام مکان وفادار بیٹے کی بنیاد پر دینے کے بجائے بینک قرض کی بنیاد پر رجسٹرڈ کرایا گیا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مذکورہ تفصیل درست ہے اور اس مکان کی زمین اور تعمیر دونوں آپ کے والد صاحب کی ملکیت تھی، بینک ملازم بھائی کی رقم اس میں نہیں لگی، تو والد صاحب کا صرف ایک مصلحت اور مجبوری کی خاطر کاغذات میں نصف حصۂ مکان اس بیٹے کے نام کرانے سے وہ شرعا نصف حصۂ مکان کا مالک نہیں بنا۔ لہذا یہ پورا مکان آپ کے والد کی میراث شمار ہوگی جس میں ان کے تمام ورثا کو اپنا اپنا شرعی حصہ ملے گا۔  

حوالہ جات
فقه البیوع (1/227-226):
و ما ذکر نا من حکم التلجئة یقاربه ما یسمی فی القوانین الوضعیة "عقودا صوریة" (Ostensible   Contracts)   و تسمی فی بلاد نا Benami     Contracts   ، و هی أن تشتری أرض باسم غیر المشتری الحقیقی، و تسجل الأرض باسمه فی الجهات الرسمیة، و ذلك لأغراض ضریبیة أو لأغراض أخری، و لکن المشتری الحقیقی هو الذی دفع ثمنه. و عدة من القوانین الوضعیة تعترف بکونها صوریة، و بأن العبرة فیما بین المتعاقدین بالعقد الحقیقی المستتر……………… و علی هذا الأساس أفتی علماء شبه القارة الهندیة بأن مجرد تسجیل الأرض باسم أحد لا یستلزم أن یکون هو مالکا لها، فلو اشتراها أحد باسم رجل آخر لم یدفع الثمن، و إنما دفع الثمن من قبل الأول، فمجرد هذا التسجیل لا یعنی أنه وهب له الأرض.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

20/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب